ریاض(این این آئی)شمالی سعودی عرب کا شہرضبا اپنے ساحلوں کی پاکیزگی ، تجارت اور ماہی گیری کیساتھ بحری جہازوں کے لیے ایک محفوظ بندرگاہ کی خصوصیت رکھتا ہے۔ اس ساحلی شہر کو بحیرہ احمر کا موتی کہا گیا کیونکہ یہ ماہی گیری کے لیے مشہور ہونے کے ساتھ تاریخی مقامات اور آثار قدیمہ سے مالا مال ہے۔ضبا شہر کے بارے میں مزید
تفصیلات تبوک کے ٹور گائیڈ عبداللہ زعیر نے عرب ٹی وی کو بیان کیں اورکہا کہ ضبا جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے تبوک کے مضافات میں واقع ہے اور یہ شہر ساحلی راستے کا ایک قدیم پڑا سمجھا جاتا ہے۔ اس راستے کو مصری حجاج روڈ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں پرقلعہ شاہ عبدالعزیز سمیت کئی تاریخی اور آثار قدیمہ کے مقامات ہیں۔ یہ قلعہ سعودی عرب کے تاسیسی مرحلے کے دوران شاہ عبدالعزیز کے دور میں بنائے گئے قلعوں میں سے ایک ہے۔زعیر نے بتایا کہ ضبا شہر 1352 ہجری میں تعمیر کیا گیا تھا۔ پرانے شہر کے علاوہ یہ گورنری میں پہلی رہائشی جگہ ہے جو 200 سال سے زیادہ پرانی ہے۔ضبا خلیج کے ساحل پر تعمیر کیا گیا شہر ہے۔ قلعہ المویلح بھی ضبا کے تاریخی آثار قدیمہ میں سے ایک ہے جو کسی دور میں ساحلی راستے سے آنے والے حجاج کرام کے لیے ایک پڑا کا درجہ رکھتا تھا۔ اس کے علاوہ ضبا شہر متاخراسلامی دور میں حجاج کرام کے لیے شمال کی طرف سے مملکت میں داخلے کا ایک دروازہ تھا۔جہاں تک ضبا کی
بندرگاہ کی تاریخ کا تعلق ہے زعیر نے انکشاف کیا کہ اس بندرگاہ میں سفر تیرہویں صدی سے شروع ہوا تھا۔ اس وقت لکڑی سے بنی ایک برتھ کے ساتھ جہاز کررکتے جہاں سے حجاج کرام کو وصول کیا جاتا۔ اسے دھوکہا جاتا ہے۔ وہاں سے حاجی اپنا سامان بندرگاہ پر لے جاتے۔ سعودی دور میں ضبا کی بندرگاہ کو 1415 ھ میں کھولا گیا تھا۔ یہ بندرگاہ
سعودی عرب کے شمال مغربی علاقے اور عالمی معیشت کے درمیان رابطے کا ایک ذریعہ تھی۔انہوں نے کہا کہ شمالی بحر الاحمر پر واقع ہونے کی بہ دولت یہ بندرگاہ خلیج تعاون کونسل کے ممالک اور عراق سے تجارتی سامان کی آمد ورفت کا بہترین راستہ ہے۔