اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) تین سال کے اندر بیرونی قرضے 40 ارب ڈالرز کے قریب پہنچ گئے۔ جب کہ رواں مالی سال کے دوران مجموعی بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا تخمینہ 14.7 ارب ڈالرز ہے۔روزنامہ جنگ میں مہتاب حیدر کی خبر کے مطابق، پاکستان میں ادائیگی میں توازن کی حیثیت بدترین ہوتی
جارہی ہے، جس کی وجہ بڑھتا ہوا درآمدی دبائو اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی ہے جس میں مارک اپ اور اصل رقم بھی شامل ہے۔ملک کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی جس میں مارک اپ اور اصل رقم شامل ہے وہ تین سال کے اندر 40 ارب ڈالرز کے قریب پہنچ چکی ہے۔ صرف آنے والے اکتوبر کے پہلے ہفتے تک اسلام آباد کو اسلامی سکوک بونڈز کی مد میں 1 ارب ڈالرز کی ادائیگی کرنا ہے جو کہ 2016 میں جاری کیے گئے تھے۔رواں مالی سال کے دوران مجموعی بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا تخمینہ 14.7 ارب ڈالرز لگایا گیا ہے۔ حکومت نے پیرس کلب کو 83 کروڑ ڈالرز بیرونی قرض کی مد میں ادا کرنا ہیں اس کے علاوہ نان پیرس کلب کو 4.7 ارب ڈالرز، کثیرجہتی قرض دہندگان کو 2.6 ارب ڈالرز، کمرشل قرض دہندگان کو 4.448 ارب ڈالرز، بونڈ کی ادائیگی کے لیے 1 ارب ڈالرز اور آئی ایم ایف کو 1.068 ارب ڈالرز کی ادائیگی کرنا ہے۔غذائی اجناس جس میں گندم، شکر اور کپاس شامل ہے، ان کی اضافی درآمدات پر گزشتہ مالی سال کے دوران 8.2 ارب ڈالرز خرچ کیے گئے۔ جب کہ رواں مالی سال میں بھی ان غذائی اجناس کی درآمدات جاری رہے گی۔ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی بڑھی ہیں اور عرب برینٹ 76 ڈالرز فی بیرل تک پہنچ چکا ہے۔