بھٹو اور شریفوں کے درمیان باہمی اعتماد کے فقدان سے کس نے فائدہ اٹھایا؟ سینئر صحافی نے خبر دار کردیا

31  مارچ‬‮  2021

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)بھٹو اور شریفوں کے درمیان باہمی اعتماد کے فقدان کی 1970 کی دہائی سے ایک تاریخ ہے۔ انہوں نے بداعتمادی کو ختم کرکے اعتماد سازی کیلئے اکثر کوششیں بھی کیں لیکن زخم اس قدر گہرے ہیں کہ انہیں مندمل کرنا آسان نہ ہو گا۔ اسی چیز نے پنجاب اور سندھ میں ان کے کارکنوں کے درمیان خلیج حائل کردی ہے۔روزنامہ جنگ

میں مظہر عباسی لکھتے ہیں کہ نئی قیادت کو نئی سیاسی حکمت عملی کے ساتھ سامنے آنے کے بجائے وہی نفرتیں اور سیاسی عدم اعتمادی آئندہ نسل میں منتقل کی جا رہی ہے۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری بھی اسی ڈگر پر چل پڑے ہیں۔ ان رویوں نے ملک میں سیاسی و جمہوری عمل کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن اس بات سے طاقتور حلقوں کو سیاسی نظام میں دخل اندازی اور ایک دوسرے کو لڑانے کا موقع مل گیا۔ چونکہ آج بھی معاملات نواز شریف اور آصف علی زرداری کے قابو میں ہیں لہذا مریم اور بلاول بھی ماضی کی سیاست کے ہی یرغمال ہیں۔انہیں اس ماضی سے نکلنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ اپنے بزرگوں کے اختیار کردہ موقف اور راستے سے انحراف ان دونوں کے لئے آسان نہیں ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ اجلاس میں یہی کچھ ہوا جب مسلم لیگ (ن) کے رہنما طارق فضل چوہدری نواز شریف اور آصف علی زرداری نے اسمبلیوں سے استعفوں کے معاملے پر ایک دوسرے سے اختلاف کیا۔ حالات اس وقت بدسے

بدتر ہو گئے جب زرداری نے نواز شریف کو کہا وہ لانگ مارچ چاہتے ہیں تو پاکستان واپس آکر احتجاج کی قیادت کریں۔ اس بات نے نواز شریف میں خفگی پیدا کی۔اب اس کیفیت میں بلاول جو کاغذ پر تو اپنی پارٹی کے چیئرمین، زرداری شریک چیئرمین اور مریم ن لیگ کی نائب صدر

اور عملاً اپنے والد کی غیر موجودگی میں شہباز شریف کے صدر ہونے کے باوجود پارٹی سربراہ ہیں لیکن مشکل ہی سے پالیسی فیصلے کر سکتے ہیں۔مسلم لیگ (ن)کی پنجاب اور پیپلز پارٹی کی سندھ میں جڑیں ہیں لیکن دونوں جماعتوں کو ایک دوسرے کے خلاف سیاست کا نقصان اٹھانا

پڑ رہا ہے۔ بلاول اور مریم دونوں ہی اپنے والد کے اختیار کردہ خطوط پر ہی عمل پیرا ہیں۔مسلم لیگ (ن)کو پیپلز پارٹی کے مقابلے میں زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔ سیاسی بیانیہ یا قیادت پر پیپلزپارٹی کو کوئی چیلنج درپیش نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں ایسا نہیں ہے۔ شہباز شریف اور ان کے

بیٹے پارٹی کے اندر اختلاف تو رکھتے ہیں۔ خاندانی سیاست کی بھی اپنی جگہ خامیاں ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ خاندان کے ہر فرد کی سوچ یکساں ہو۔اس کے ساتھ ہی یہ بھی ممکن ہے کہ نئی نسل اپنے پیشرو سے کہیں زیادہ بن کر سامنے آئے۔ یہ بھی روایت ہے کہ لوگ سیاسی خاندانوں کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔

موضوعات:



کالم



ریاست کو کیا کرنا چاہیے؟


عثمانی بادشاہ سلطان سلیمان کے دور میں ایک بار…

ناکارہ اور مفلوج قوم

پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…

Javed Chaudhry Today's Column
Javed Chaudhry Today's Column
زندگی کا کھویا ہوا سرا

Read Javed Chaudhry Today’s Column Zero Point ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…