ایک ہی دن میں دو واقعات ہوئے‘ وہ نوٹر ڈیم کی پتلی گلیوں سے گزر رہا تھا‘ راستے میں شرابی گرے پڑے تھے‘ منہ سے خون ٹپک رہا تھا اور لوگ خوف سے ان کے قریب نہیں جا رہے تھے‘ وہ دیر تک کھڑا ہو کر شرابیوں کو دیکھتا رہا اور افسوس سے ہاتھ ملتا رہا‘ وہ نوٹر ڈیم سے دریائے سین کے کنارے آ گیا‘ وہاں دوسرا خوف ناک منظر اس کا انتظار کر رہا تھا‘ پل کے نیچے تین نوجوان آخری سانسیں لے رہے تھے
اور لوگ کھڑے ہو کر تماشا دیکھ رہے تھے‘ اس نے رک کر پوچھا ’’کیا ہوا؟‘‘ لوگوں نے افسوس سے ہاتھ مل کر جواب دیا ’’یہ تینوں باولے کتوں کی وجہ سے باولے ہو گئے ہیں‘ گھر والے انہیں یہاں چھوڑ گئے ہیں اور یہ آخری سانسیں لے رہے ہیں‘‘ پروفیسر لوئی کے منہ سے چیخ نکل گئی اور وہ بے اختیار بولا ’’انسانیت کی اتنی بڑی تذلیل‘‘ ان دونوں واقعات نے اس کا ذہن پلٹ دیا اور اس نے فیصلہ کر لیا’’میں مرنے سے پہلے انسانیت کو ان دونوں دکھوں سے آزاد کر دوں گا‘‘ وہ گھر واپس گیا اور شراب اور کتے کے باولے پن پر ریسرچ شروع کر دی۔وہ 1850ء تھا‘ پیرس ابھی روشنیوں کا شہر نہیں بنا تھا‘ شہر میں گندگی بھی تھی‘ مکھیاں اور مچھر بھی اور کیچڑ‘ بھکاری اور بیماریاں بھی‘ پروفیسر لوئی نے ان حالات میں 1822ء میں جنم لیا‘ والد نپولین کی فوج میں سپاہی ہوتا تھا‘ نپولین کے زوال کے بعد والد بے روزگار ہو گیا‘ اسے چمڑا رنگنے کا کام آتا تھا چناں چہ اس نے چمڑہ رنگنے کا کام شروع کر دیا‘لوئی بچپن میں خاموش طبع پڑھاکو بچہ تھا‘ اس نے بائیالوجی اور کیمسٹری میں تعلیم حاصل کی اور اسٹراسبرگ یونیورسٹی میں کیمسٹری پڑھانا شروع کر دی‘ شام کوپارک میں چہل قدمی کرتا تھا‘ ہفتے میں دو دن چھٹی ہوتی تھی اور وہ ان دنوں جنگلوں اور پہاڑوں میں نکل جاتا تھا‘ زندگی شان دار گزر رہی تھی لیکن پھر پیرس کا وہ دن آگیا‘ وہ نوٹر ڈیم چرچ گیا‘ واپسی پر اس نے پہلے بیمار شرابی دیکھے اور پھر پلوں کے نیچے پڑے نوجوانوں پر نظر پڑی اور اس کی زندگی کا دھارا بدل گیا اور اس نے انسانیت کو ان دونوں دکھوں سے نکالنے کا فیصلہ کر لیا‘ میں داستان آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو یہ بتاتا چلوں 1800ء کے آخر تک شراب پینے والے لوگوں کے جگر تین چار سال میں گل جاتے تھے‘ ان کے پھیپھڑے بھی
جواب دے جاتے تھے اور یہ خون تھوک تھوک کر مر جاتے تھے‘ دنیا میں باولے کتے کے کاٹنے کا بھی کوئی علاج نہیں ہوتا تھا‘ کتا کاٹتا تھا اور انسان سسک سسک کر گزر جاتا تھا‘ لوگ مریض کو اچھوت بھی سمجھتے تھے چناں چہ یہ شرابیوں اور باولے کتوں کے شکار لوگوں کو دریا کے پلوں کے نیچے پھینک آتے تھے اور یہ وہیں مر جاتے تھے یا پھر گھسیٹ گھسیٹ کر نوٹر ڈیم کی گلیوں میں آ جاتے تھے اور بھیک مانگ مانگ کر آخری سانسیں پوری کرتے تھے اور میونسپل کارپوریشن ان کی لاشیں جلا کر
راکھ زمین میں دفن کر دیتی تھی۔ پروفیسر لوئی نے دونوں بیماریوں پر تحقیق شروع کر دی‘ شراب پر تحقیق کے دوران اسے پتا چلا‘ تبخیر کے عمل کے دوران شراب میں انتہائی چھوٹے چھوٹے جراثیم پیدا ہو جاتے ہیں‘ یہ انسانی جسم کے اندر پہنچ کر انفیکشن پیدا کر دیتے ہیں اور انفیکشن جسم کو گلانا شروع کر دیتا ہے‘ پروفیسر لوئی نے شراب کو ان جراثیم سے صاف کرنے کا عمل شروع کر دیا‘ یہ مختلف شرابوں کو تبخیر کے مختلف عوامل سے گزارتا رہا یہاں تک کہ شراب کے اندر موجود نوے فیصد مضر صحت
جراثیم ختم ہو گئے‘ 1872ء میں اس کا مقالہ چھپا اور پوری دنیا میں تہلکہ مچ گیا‘ فرانس نے سب سے پہلے یہ عمل شراب سازی کی صنعت میں متعارف کرایا اور پورے ملک میں شرابی مرنا بند ہو گئے‘ پروفیسر لوئی کا طریقہ اس کے بعد پوری دنیا میں نافذ ہو گیا‘کروڑوں لوگ بچ گئے‘ پروفیسر لوئی نے اس کے بعد کتے کے کاٹنے کا علاج بھی دریافت کر لیا‘ کتے کے کاٹنے کی ویکسین دنیا میں پہلی ویکسین تھی‘ یہ 1885ء میں پیرس میں پہلے انسان کو لگائی گئی اور اس کی جان بچ گئی‘ کمال ہو گیا‘
اس کا اگلا کمال اینتھراکس کا علاج تھا‘ اینتھراکس (Anthrax) خوف ناک بیکٹیریا پیداوار ہوتا ہے‘ یہ انسان کی جلد‘ پھیپھڑوں‘ معدے اور بڑی آنت میں السر پیدا کر دیتا ہے‘ پروفیسر لوئی نے اس کا علاج بھی دریافت کر لیا‘ یہ تینوں کارنامے اتنے بڑے کمال تھے کہ پروفیسر بھی آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ چومتے تھے‘یہ دیوتا بن چکا تھا لیکن دیوتا کا سفر یہاں ختم نہ ہوا‘ اس نے پیرس میں چھوٹی سی
جگہ خریدی اور دنیا میں مائیکرو بائیالوجی کا پہلا انسٹی ٹیوٹ بنا دیا‘ انسٹی ٹیوٹ 1887ء میں قائم ہوا اور اس نے دنیا کی مہلک ترین بیماریوں پر ریسرچ شروع کر دی‘ وہ دنیا کا پہلا مائیکرو بائیالوجسٹ بھی تھا‘ اس نے تحقیق سے ثابت کیا تھا دنیا میں جراثیم سے بھی سیکڑوں گنا چھوٹے بیکٹیریا موجود ہیں اور یہ بیکٹیریا اصل میں بیماریاں پیدا کرتے ہیں اور ان کا حل انسانی خون میں ان جیسے بیکٹیریا ہیں جو جسم میں قوت مدافعت پیدا کر دیں اور یہ قوت بیماری کا مقابلہ کر سکے چناں چہ اس نے بیکٹیریا کا
مقابلہ کرنے کے لیے دنیا میں پہلی ویکسین بنائی۔ لوئی نے شراب کو صاف کرنے کے لیے جو سسٹم متعارف کرایا تھا وہ بعدازاں دودھ‘ جوس اور خوراک کے دیگر ذرائع میں بھی استعمال ہونے لگا اور اس کے نتائج بھی حیران کن نکلے‘ دودھ بھی لمبی مدت کے لیے محفوظ ہو گیا‘ جوس بھی اور باقی تمام غذائیں بھی۔ ہم آج اس سسٹم کو پروفیسر لوئی کے نام پر پاسچرائزیشن کہتے ہیں‘ جی ہاں اس شخص کا نام لوئی پاسچر تھا۔
لوئی پاسچر نے پوری زندگی جو کمایااس نے اس سے پیرس میں مائیکرو بائیالوجی کا دنیا کا پہلا انسٹی ٹیوٹ بنا دیا اور پھر آخری سانس تک اس انسٹی ٹیوٹ میں کام کرتا رہا‘ وہ سات سال مسلسل ریسرچ کرتا رہا‘ انسٹی ٹیوٹ اس کی لیبارٹری بھی تھا اور گھر بھی ‘وہ وہیں رہتا تھا‘ لوئی پاسچر کا انسٹی ٹیوٹ اس کے بعد بھی چلتا رہا‘ آج اسے 134 سال ہو چکے ہیں‘ اس انسٹی ٹیوٹ نے آگے چل کر ڈائریا‘ ٹیٹنس‘ ٹی بی‘
انفلوئنزا‘ بخارا ور طاعون کا علاج دریافت کیا‘ پہلی جنگ عظیم میں ٹائفائیڈ کی ویکسین بھی اسی ادارے نے بنائی‘پاسچر انسٹی ٹیوٹ نے 1914ء میں ٹائیفائیڈ کی 6 لاکھ 70 ہزار خوراکیں تیار کر دیں‘ پاسچر انسٹی ٹیوٹ نے 1983ء میں پہلی بار ایڈز کا وائرس ایچ آئی وی بھی ڈسکور کیا تھا‘ ادارے کے 10 سائنس دانوں نے نوبل انعام حاصل کیا‘ اس وقت بھی اس میں 2780 لوگ کام کرتے ہیں ‘
ان میں 500 پروفیسر ڈاکٹر سائنس دان ہیں جب کہ 600 سائنس دان وزٹنگ سٹاف ہیں‘ دنیا کے 70 ملکوں کے سائنس دان مستقل طور پر اس ادارے میں آتے رہتے ہیں جب کہ 24 ملکوں کے ساتھ ان کا تعاون چل رہا ہے‘ ریسرچ کے 100 سنٹر ہیں اور ہر سنٹر میں پاگلوں کی جماعت دن رات ریسرچ کرتی رہتی ہے‘ آپ صرف پروفیسر جینز فرانسس بیورو کی مثال لے لیں‘ ہم نے 2010ء میںپہلی
بار ڈینگی کا نام سنا تھا جب کہ پروفیسر جینز فرانسس 27سال سے ڈینگی پر ریسرچ کر رہے ہیں‘ یہ دو سال بعد ریٹائر ہو جائیں گے لیکن اپنا ریسرچ پیپر دنیا کے حوالے کر جائیں گے جب کہ اس وقت 1900 سائنس دان پاسچر انسٹی ٹیوٹ میں کورونا پر ریسرچ کر رہے ہیں‘ یہ دن رات وائرس پر نظریں گاڑھ کر بیٹھے ہیں اور یہ جب تک اس کی ساری عادتیں نوٹ نہیں کر لیتے یہ اس وقت تک پلک نہیں
جھپکائیں گے‘ ہمیں آج یہ بھی ماننا ہو گا اگر لوئی پاسچر نہ ہوتا‘ اگر یہ شخص اپنی زندگی انسانیت کے لیے وقف نہ کرتا تو آج دنیا کی آدھی آبادی سسک سسک کر مر رہی ہوتی‘ یہ اس شخص کی مہربانی تھی جو ہم آج صحت مند اور پرمسرت زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ پاسچر جیسے لوگ ہوتے ہیں جنہیں اصل اشرف المخلوقات کہا جانا چاہیے‘ جو انسانیت کے محسن ہیں‘ جوا صل ولی اللہ ہیں‘ کاش ہم لوئی پاسچر جیسا کوئی ایک شخص پیدا کرلیں یا ہم پاسچر انسٹی ٹیوٹ جیسا کوئی ایک ادارہ بنا لیں تو ہم اس طرح دنیا میں جوتے نہ کھائیں۔
یہ لوئی پاسچر 28ستمبر 1895ء کو چند گھنٹوں کے لیے اپنے انسٹی ٹیوٹ سے نکلا‘ پیرس کے مضافات میں گیا اور وہاں اسے ہارٹ اٹیک ہو گیا‘ ساتھیوں نے اس کو لٹا دیا‘ کوٹ کھولا‘ پیالی میں تھوڑا سا دودھ ڈالا اور اس کے ہونٹوں کے ساتھ لگا دیا‘ اس نے پینے کی کوشش کی لیکن پی نہ سکا‘ دودھ دوبارہ ہونٹوں کے ساتھ لگایا گیا تو اس نے کہا ’’میں نہیں پی سکتا لیکن میری وجہ سے دنیاقیامت تک صاف ستھرا دودھ پیتی رہے گی‘‘ وہ رکا‘ لمبی سانس لی اور بولا’’ ہمیں ہر صورت کام کرنا چاہیے‘
ہر صورت اور میں نے اپنی اوقات سے بڑھ کر کام کیا‘‘ اس نے ایک اور لمبی سانس لی اور اس کی گردن ڈھلک گئی‘ اگلے دن اسے شاہی اعزاز کے ساتھ پاسچر انسٹی ٹیوٹ میں دفن کر دیا گیا اوراس کے بعد 126 برسوں سے اس کی قبر کے گرد دنیا کی مہلک ترین بیماریوں کا علاج دریافت ہو رہا ہے اور ان بیماریوں میں کورونا بھی شامل ہے‘ کاش ہم میں ایک لوئی پاسچر ہوتا‘ اللہ کا اصل دوست‘ اصل ولی اللہ۔