ا سلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا ہے کہ فرانس سے معافی مانگی نہ مانگوں گی،مغرب آزادی اظہار رائے کے نام پر منافقت اور تکبر سے کام لے رہا ہے، فرانسیسی صدر کے بارے میں ٹوئٹ پر انہیں توہین محسوس ہوتی ہے ،پیغمبر اسلامؐ پر توہین آمیز حملوں کو اظہار رائے کی آزادی کہا جاتا ہے۔ ایک انٹرویومیں وفاقی وزیر نے کہاکہ ہم سے
توقع کی جاتی ہے کہ ہم آزادی اظہار رائے کا احترام کریں گے تو فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون سے متعلق بیان کے وقت آزادی اظہار رائے کہاں چلا گیا؟ یہ ستم ظریفی اور منافقت ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ مغرب کا تکبر ہے۔فرانس کے وزیر خارجہ ایگنس وان ڈیر محل نے شیریں مزاری کے بیان پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ نفرت انگیز الفاظ صریح جھوٹ پر مبنی ہیں، نفرت اور تشدد کے نظریات سے دوچار ہیں۔چنانچہ ایک ٹوئٹ میں شیریں مزاری نے بتایا کہ فرانسیسی سفیر نے مجھے پیغام بھیجا ہے کہ جس مضمون کا حوالہ دے کر آپ نے نازیوں اور یہودیوں والی بات کہی دراصل اس آرٹیکل میں معلومات غلط تھیں’ اس لیے میں اپنی پہلی والی ٹوئٹ حذف کرتی ہوں۔مذکورہ تنازع کے حوالے سے وفاقی وزیر نے کہا کہ میں نے جس آرٹیکل سے خبر پڑھی جب اس سورس نے معافی مانگ لی اور کہا کہ خبر غلط تھی تو مجھے اپنی ٹوئٹ ڈیلیٹ کرنی پڑی۔انہوں نے واضح کیا کہ نہ میں نے فرانس سے معافی مانگی ہے اور نہ میرا ارادہ ہے جبکہ معافی مانگنے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے میں نے خبر پڑھ کر اس پر اپنا تجزیہ دیا تھا جب وہ خبر واپس ہوگئی تو میں نے ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دی جبکہ فرانس اور دیگر کئی جگہ پر کہا جا رہا ہے کہ فرانس نے معافی قبول کر لی۔وفاقی وزیر نے کہا کہ فرانسیسی صدر کو توہین محسوس ہوئی ہے کیونکہ میں نے ان کا موازنہ نازیوں سے کیا، ہاں یہ حساس
معاملہ ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کو توہین محسوس نہیں ہوتی جب وہ ہمارے پیغمبرؐپر حملہ کرتے ہیں، ان کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، قرآن کو نذر آتش کرتے ہیں تو ہمیں غصہ نہیں آئے؟شیریں مزاری نے کہا کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ آئی ہے کہ فرانس میں آزادی اظہار رائے محدود ہے، وہ جو یہ بات کہتے ہیں کہ اظہار رائے کی
آزادی ہے اس پر بہت سے سوالات اٹھتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے ایک مسئلہ یہ بھی اٹھایا تھا کہ آپ کی نن (راہبائیں) اپنا مذہبی لباس ہر جگہ پہنتی ہیں، عوامی مقامات، پر بینکوں میں اسی لباس میں جاتی ہیں جبکہ مسلمان عورت کو عوامی مقامات پر حجاب پہننے پر جرمانہ کیا جاتا ہے، یہ کون سی آزادی ہے؟ کیا یہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہے؟وفاقی وزیر نے کہا کہ
فرانس میں ایک اور قانون بنایا گیا ہے جس کا نوٹس میڈیا نے نہیں لیا، اس قانون کے تحت کسی شہری کی جانب سے جنس کی بنیاد پر ڈاکٹر سے علاج کرانے سے انکار کرنا جرم ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ قانون مسلمان خواتین کے
خلاف ہے، کیوں کہ مسلمان خواتین مرد ڈاکٹرز کے ساتھ اچھا محسوس نہیں کرتیں، خاص طور گائنی کے حوالے سے یہ حساس معاملہ ہے لہٰذا اس پر غور کرنا چاہیے کہ ایسا قانون بنانے کی کیا وجہ تھی کہ جس میں خاص طور پر مسلمان خواتین ہدف بنیں۔