کراچی (این این آئی)عالمی مارکیٹ میں گزشتہ روز بدھ کو سونے کی فی اونس قیمت میں 3ڈالرز کی کمی ہوئی جس کے بعد سونے کی فی اونس قیمت1874ڈالر کی سطح پر آگئی۔عالمی مارکیٹ میں سونے کے نرخوں میں کمی کے باعث مقامی سطح پر سونے کی قیمت100روپے کمی سے1لاکھ12ہزاراور دس گرام سونے کی قیمت86روپے کمی سے 96ہزار22روپے رہی جبکہ چاندی کی
فی تولہ قیمت1180روپے کی سطح پر مستحکم ریکارڈ کی گئی۔ ۔دوسری جانب رواں ہفتے کے تیسرے کاروباری روزملک بھر میں ایک مرتبہ پھر روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر میں 20 پیسے کی گراوٹ دیکھی گئی۔سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں ہفتے کے مسلسل تیسرے کاروباری روز کے ڈالر کی قدر میں گراوٹ دیکھی گئی۔ امریکی کرنسی 20 پیسے سستا ہونے کے بعد 158 روپے 49 پیسے کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ روز روپے کے مقابلے میں ڈالر 22 پیسے سستا ہونے کے بعد 158 روپے 69 پیسے کی سطح پر پہنچ گیا تھا۔دریں اثناغیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق یکم اکتوبر سے پاکستانی روپیہ کی قدر میں3.1فیصد اضافہ سامنے آیااور خطے کی بہترین کرنسیوں جنوبی کوریاں اور انڈونیشیا کے بعد تیسرے نمبر پر آچکا ہے ۔ماہرین نے توقع ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ سال جنوری تک ڈالر کی قیمت گر کر 150روپے تک پہنچ جائے گی جبکہ ڈالر کی گرتی قیمت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک محمد بوستان نے بھی آنے والے دنوں میں امریکی ڈالر کی قدر مزید گھٹ کر 155 روپے کی کم ترین سطح پر آنے کی پیشگوئی کی ہے ۔ دوسری جانب سرمایہ کاروں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی انتخابات میں
حتمی طور پر چاہے ڈونلڈ ٹرمپ جیتیں یا جو بائیڈن لیکن ایک عرصے سے مندی کا شکار ڈالر کی صورتحال بہتر ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق مارچ میں ڈالر بلندی کی سطح پر پہنچ گیا تھا لیکن اس وقت وہ مذکورہ اعشاریے سے 9 پوائنٹس نیچے ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ 2017 میں اپنی بدترین سطح تک دوبارہ پہنچ جائے گا جس کے بعد ماہرین کا
خیال ہے کہ آئندہ آنے والے کئی سالوں تک ڈالر کی سطح نیچے ہی رہے گی۔ ماہرین اور سرمایہ کاروں کا خیال ہے کہ جو بائیڈن کی حتمی فتح سے کرنسی مزید کمزور ہو گی کیونکہ وہ ممکنہ طور پر ایسی پالیسیاں متعار ف کرائیں گے جس سے ڈالر پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اسی طرح کچھ کا ماننا ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ مزید 4سال برسر اقتدار رہتے ہیں تو وہ ڈالر کے لیے صحیح اور واضح سمت کا تعین نہیں کر سکیں گے، البتہ ان کی چین مخالف حکمت عملی سے ڈالر کی عالمی منڈی میں مضبوطی اور بہتری کا امکان موجود ہے۔