واشنگٹن (این این آئی )قومی دھارے میں شامل ووٹروں کی طرح جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے امریکی شہریوں نے بھی صدارتی الیکشن میں بھرپور شرکت کی ہے ۔ ملک کے طول و عرض میں پھیلے بھارت اور پاکستان سے آئے تارکین وطن نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ اسی طرح دارلحکومت واشنگٹن ڈی سی اور اس سے جڑی ریاستوں میری لینڈ اور ورجینیا میں
بسنے والے بہت سے لوگوں نے الیکشن کے دن سے پہلے اپنے جمہوری حق کو استعمال کیا۔امریکی میڈیا کے مطابق بہت سے لوگوں نے ارلی ووٹنگ یعنی انتخابات والے دن سے قبل ووٹ ڈالنے کی سہولت استعمال کی۔ تاہم کئی لوگوں نے الیکشن والے دن بھی ووٹ ڈالے۔ جنوبی ایشیا سے آئے تارکین وطن میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹک دونوں جماعتوں کے حامی موجود ہیں۔مائک غوث ایک انڈین امریکی ہیں جو عرصہ دراز سے بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے قومی دھارے اور کثیرالثقافتی برادریوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے دارلحکومت واشنگٹن میں ووٹ ڈالا۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے جب بیلٹ اور ووٹ کے کاغذات دیکھے تو مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ کئی پوزیشنوں پر مسلمان اور باقی اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کے نام بھی تھے۔ڈاکٹر شاوانا مفتی ورجینیا میں مقیم پاکستانی نژاد شہری ہیں۔ انہوں نے ڈاک کے ذریعہ اپنا ووٹ ارسال کیا۔امریکیوں کی جمہوریت سے لگا کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ امریکی عوام ایک جمہوری اور انصاف پر مبنی معاشرہ چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ترقی پسند لوگ غیر جمہوری طرز حکومت کے خلاف ہوتے ہیں۔دوسری طرف بھارتی نژاد کامیاب کاروباری شخصیت جسی سنگھ کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کے چار سال امریکی جمہوریت کے لیے بہتر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ووٹر صدر ٹرمپ کی معاشی پالیسیوں اور کامیابیوں کو قائم رکھنے کے لیے انہیں ووٹ دے رہیں ہیں اور انہیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔جسی سنگھ سکھس فار ڈونلڈ ٹرمپ نامی تنظیم کے بانی ہیں انہوںنے کہاکہ صدر ٹرمپ کے دور میں تمام اقلیتی برادریوں میں بے روزگاری کی شرح امریکی تاریخ میں کم ترین شرح پر رہی۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کا الیکشن میں بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ مسلسل لاک ڈاون کی صورت حال میں نہیں رہنا چاہتے۔لیکن ڈیموکریٹک امیدوار بائیڈن کے حامی حالات کو اس کے برعکس دیکھتے ہیں اور ٹرمپ انتظامیہ پر کرونا بحران کے حوالے سے تنقید کرتے ہیں۔ نیو جرسی میں منٹگمری ٹان کی میر صدف جعفر نے پیر کو وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ پر یہ الزام لگایا تھا کہ وہ کرونا وائرس پر کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے۔جنوبی ایشیا سے آئے کچھ لوگ اپنے آپ کو کسی بھی پارٹی سے منسلک نہیں کرتے اور آزادانہ حیثیت سے جمہوری عمل میں حصہ لیتے ہیں۔پاکستان سے آئے ڈیوڈ سالک ایک متحرک سماجی رکن اور دنیا بھر میں اقلیتوں کی حفاظت اور بھلائی کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔اسی طرح پہلی بار ووٹ کا حق استعمال کرنے والے ایک پاکستانی نے اپنا نام نہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پولنگ اسٹیشن پر موجود تمام عملے نے ان کے پہلی بار ووٹ ڈالنے کو سراہا اور تالیوں سے خوش آمدید کہا۔ ان کا کہنا تھا انہیں اس پذیرائی سے خوشی ہوئی۔