جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

کوئینزٹاﺅن سے

datetime 2  جولائی  2015
حضرت شاہ شمسںؒ تبریز 
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اوما راما کی صبح منجمد تھی‘ ہم نے کھڑکیوں کے پردے ہٹا دیئے‘ تاحد نظر برف ہی برف تھی‘ سورج چوٹیوں پر چمک رہا تھا لیکن وادی میں ابھی کہر کی حکمرانی تھی‘ قصبے میں دور دور تک کوئی بندہ بشر نہیں تھا‘ ہم نے اپنی گاڑی کی طرف دیکھا‘ گاڑی برف میں برف بن چکی تھی‘ ونڈ سکرین پر برف کا نیا شیشہ چڑھ چکا تھا‘ ٹائروں پر بھی سفیدی کی تہہ تھی‘ بمپر بمپر نہیں تھے‘ برف کی سلیں تھے‘ ہم جہاں قدم رکھتے تھے وہاں سے شیشہ ٹوٹنے کی آواز آتی تھی‘ یہ آواز ہمارے لئے اجنبی تھی لیکن یہ آنے والے دو دنوں کے دوران ہماری مستقل ساتھی بن گئی‘ ہم جہاں جہاں قدم رکھتے رہے وہاں وہاں ہمارے قدموں میں برف کا شیشہ ٹوٹتا رہا‘ یہ شیشہ جنوبی نیوزی لینڈ کا ”ٹریڈ مارک“ ہے‘ آپ کوئینز ٹاﺅن کے پہاڑی سلسلے میں ہوں‘ سردیوں کا موسم ہو اور آپ کے قدموں سے شیشہ ٹوٹنے کی آواز نہ آئے یہ ممکن نہیں‘ ہم جائزے کے لئے ٹاﺅن میں نکل گئے‘ گھر خوبصورت اور آرام دہ تھے‘ سکول بھی تھا‘ ہسپتال بھی‘ چرچ بھی‘ ٹاﺅن ہال بھی‘ پولیس سٹیشن بھی اور شاپنگ سنٹر بھی‘ شہر میں وہ سب کچھ تھا جس کی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے‘ ہم ایک سووینیئرشاپ میں گھس گئے‘ یہ شاپ بھی تھی‘ کافی شاپ بھی اور ریستوران بھی‘ یہ دکان ایک بزرگ خاتون اپنی تین بیٹیوں کے ساتھ چلا رہی تھی‘ خاتون خوش اخلاق اور مہربان تھی‘ وہ پاکستان کا سن کر حیران ہوئی‘ شاید اس نے پہلی بار پاکستانی دیکھے تھے لیکن طالبان اور بم دھماکوں کی وجہ سے پاکستان کا نام اس کےلئے اجنبی نہیں تھا‘ ہم یہ سن کر دکھی ہو گئے کیونکہ پاکستان کے درجنوں حوالے ہیں لیکن یہ تمام حوالے دفن ہو چکے ہیں اور دنیا نے اب دہشت گردی اور طالبانائزیشن کو ہمارا حوالہ بنا لیا ہے‘ ہم کس قدر بدقسمت لوگ ہیں! ہماری سڑک بارہ بجے کلیئر ہوئی‘ ہم اوماراما سے نکلے تو راستہ دیکھ کر پریشان ہو گئے‘ ہمیں رات کے اندھیرے میں راستہ دکھائی نہیں دیا تھا چنانچہ ہم اندھا دھند یہاں تک آ گئے‘ ہم اگر ایک بار دائیں بائیں موجود کھائیاں‘ دریا اور منجمد جھیلیں دیکھ لیتے تو ہم کبھی رات کے وقت اس راستے پر گاڑی چلانے کا رسک نہ لیتے لیکن شاید ہمارے جیسے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے ”کائنات میں جہاں فرشتوں کے پر جلنے لگتے ہیں بے وقوف وہاں چھلانگ لگا دیتے ہیں“ اور ہم پچھلی رات برف کے جہنم میں مسلسل چھلانگیں لگاتے رہے تھے‘ یہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم تھا ہم اس کے باوجود بچ گئے‘ کیوں؟ کیونکہ ہم اگر ”سلپ“ نہ بھی ہوتے تو بھی اگر خدانخواستہ ہماری گاڑی خراب ہو جاتی تو ہم برف میں جم کر فوت ہو چکے ہوتے اور پولیس کو اگلے دن ہماری لاشیں اس عالم میں ملتیں کہ یہ بڑی دیر تک یہ اندازہ نہ کر سکتی‘ ہم مرنے سے قبل ہنس رہے تھے یا رو رہے تھے اور مرنے سے قبل ہمارے جسم کا کون کون سا حصہ پھٹ گیا تھا‘ ہم نے ہاتھ باندھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور کوئینز ٹاﺅن کےلئے روانہ ہو گئے۔
کوئینز ٹاﺅن نیوزی لینڈ کی لیک ڈسٹرکٹ کہلاتی ہے‘ یہ جنوب کے آخر میں نیوزی لینڈ کا چوتھا بڑا شہر ہے‘ یہ قطب جنوبی کے ہمسائے میں واقع ہے‘ سردیوں میں یہاں شدید سردی پڑتی ہے‘ نیوزی لینڈ کی سردیاں جون‘ جولائی اور اگست تین مہینوں میں شدت اختیار کر لیتی ہیں‘ نیوزی لینڈ لمبائی میں زیادہ اور چوڑائی میں چھوٹا ملک ہے‘ کوئینز ٹاﺅن کے گرد پہاڑیوں کا طویل سلسلہ ہے‘ یہ پہاڑ ہزاروں مربع کلو میٹر تک پھیلے ہیں‘ ہر پہاڑ کے دامن میں جھیلیں ہیں‘ دریا ان جھیلوں کو ایک دوسرے سے ملاتے ہیں‘ یہاں ایسی جھیلیں بھی ہیں جو دور سے سمندر دکھائی دیتی ہیں اور ان میں باقاعدہ بحری جہاز چلتے ہیں‘ کوئینز ٹاﺅن میں سردی اور گرمی دونوں موسموں کی سینکڑوں سرگرمیاں ہیں‘ یہ اس ملک کا مشہور ترین شہر ہے‘ دنیا بھر سے لاکھوں سیاح ہر سال نیوزی لینڈ آتے ہیں اور یہ کوئینز ٹاﺅن بھی پہنچتے ہیں‘ کوئینز ٹاﺅن کے گرد و نواح میں درجن بھر چھوٹے چھوٹے ائیرپورٹس ہیں‘ یہاں سے چھوٹے چارٹر جہاز اڑتے اور اترتے ہیں‘ آپ بھی ان جہازوں کی سروس حاصل کر سکتے ہیں‘ ہیلی کاپٹر کی سروس بھی موجود ہے‘ یہ ہیلی کاپٹر آپ کو مختلف پہاڑوں پر لے جاتے ہیں‘ بحری جہاز‘ فیریز اور موٹر بوٹس بھی چلتی ہیں‘ یہ بھی آپ کو ایسی جگہوں پر لے جاتی ہیں جن پر جنت کا گمان ہوتا ہے‘ آپ جوں جوں آگے بڑھتے جاتے ہیں‘ آپ کو ان چھوئے‘ کنوارے برف پوش جزیرے ملتے ہیں‘ آپ ان جزیروں پر کیوی‘ پینگوئن اور قطب جنوبی کے رنگ برنگے پرندے اور برفیلے جانور دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں‘ یہ شہر صرف شہر نہیں‘ یہ ایک مکمل خواب‘ ایک آسودہ حسرت‘ ایک سیراب خواہش اور ایک مکمل وصل ہے‘ یہ حسن کرشمہ ساز کی ایک مکمل الف لیلیٰ بھی ہے‘ یہ قدرت کے برش سے پینٹ شدہ جمالیاتی حسوں کی ایک مکمل تصویر بھی ہے‘ ایک ایسی مونا لیزا‘ ایک ایسی سمفنی‘ ایک ایسا راگ اور ایک ایسی آیت جسے قدرت نے ہزاروں سال تک جمالیات کے تیشے سے تراشا اور پھر اپنے پسندیدہ بندوں کے سامنے آشکار کر دیا اور ہم بڑی تیزی سے اس شہر کی طرف بڑھ رہے تھے‘ راستے میں بارش تھی‘ جھیلیں تھیں‘ پہاڑ تھے‘ برف تھی‘ انگور کے باغ تھے‘ باغوں کے پیچھے وائین فیکٹریوں کی سرخ چھتیں تھیں اور کوئینز ٹاﺅن کی طرف سے آنے والی خوشبودار ہوائیں تھیں‘ شہر کے قریب پہنچ کر وادی کھل گئی‘ ہمیں دور دور تک چراہ گاہیں‘ سفید بھیڑیں‘ گھاس کے میدان اور کسانوں کے گھر دکھائی دینے لگے‘ گھر لکڑی‘ پتھر اور ٹین کے بنے تھے‘ چھتیں سرخ تھیں‘ سبز تھیں یا پھر سیاہ تھیں‘ کھیتوں کی سرحدوں پر طویل درختوں کی دیواریں تھیں‘ یہ دیواریں گرمیوں میں یقینا سبز ہوتی ہوں گی لیکن یہ سردی میں گرے رنگ کی ہو چکی تھیں‘ کھیتوں میں خشک چارے کے گٹھے تھے اور ان گٹھوں پر منہ مارتی گائیں تھیں‘ یہ فلمی منظر دل کھینچ رہا تھا‘ ہم خود کو بار بار فلم کا حصہ سمجھ رہے تھے‘ اس ٹام‘ ڈک یا ہنری کی طرح جس نے نیوزی لینڈ کے دیہی علاقے میں آنکھ کھولی ہو اور اب نیچرل سیٹ پر اس کی فلم بن رہی ہو‘ ہم ٹام‘ ڈک یا ہنری کی اس فلم کا حصہ تھے‘ کوئینز ٹاﺅن سے پہلے پھلوں اور سبزیوں کے سٹالز آ گئے‘ یہ سٹالز بڑے بڑے تھے اور یہ مقامی کسان چلاتے تھے‘گاڑیاں ان سٹالز پر رک رہی تھیں‘ پھل مقامی تھے اور سبزیاں دوسرے شہروں سے آئی تھیں‘ یہ لوگ مقامی شہد اور گھروں میں تیار کردہ وائین بھی بیچتے تھے‘ ہم نے یہاں سے افطار کا سامان خرید لیا اور پھر ہم اس شہر میں داخل ہو گئے جس کےلئے ہم نے پندرہ سو کلو میٹر ڈرائیو کی تھی‘ کوئینز ٹاﺅن‘ جھیلوں کا شہر‘ دنیا کے جنوب میں آخری بڑا شہر۔
کوئینز ٹاﺅن ایک وسیع جھیل کے کنارے آباد ہے‘ آپ اگر شہر کے درمیان میں کھڑے ہوں اور آپ دائیں بائیں اور آگے پیچھے دیکھنا شروع کریں تو آپ شہر کے سحر میں کھو جائیں گے‘ آپ کو چاروں اطراف افق کے قریب سفید برف پوش چوٹیاں دکھائی دیں گی‘ چوٹیوں کے قدموں میں سبز جنگل ہیں‘ جنگلوں سے آگے مکان ہیں‘ مکان سیڑھیوں کی طرح اوپر نیچے بنے ہیں‘ مکانوں کے آخر میں گراﺅنڈ لیول پر شہر کا سنٹرل حصہ ہے‘ سٹی سنٹر میں ریستوران‘ کیفے‘ سووینیئر شاپس‘ شاپنگ سنٹرز‘ انفارمیشن سنٹرز‘ ٹور آپریشن کمپنیوں کے دفاتر اور ہوٹلز ہیں‘ آپ اگر سٹی سنٹر سے بائیں جانب چل پڑیں تو آدھ کلو میٹر کی واک کے بعد جھیل آ جاتی ہے‘ جھیل شروع میں سمندر دکھائی دیتی ہے‘ آپ کو اس کا دوسرا کنارا دکھائی نہیں دیتا‘ جھیل کے گرد ریستورانوں‘ کافی شاپس‘ بارز اور ہوٹلز کا دائرہ سا کھچا ہے‘ آپ پانی کے قریب پہنچیں تو فیریز‘ موٹر بوٹس‘ بحری جہازوں اور واٹر گیمز کی مختلف کمپنیوں کے بکنگ آفس ہیں‘ آپ جھیل کے کنارے کنارے چلنا شروع کریں تو آپ کو پانی میں براﺅن رنگ کی بطخیں اور کونجیں بھی نظر آئیں گی‘ ہم جھیل کے کنارے پہنچے تو بارش شروع ہو گئی‘بارش میں کوئینز ٹاﺅن مزید خوبصورت ہو گیا‘ سردی کا زور ٹوٹ گیا اور فضا میں ایک خوشبو سی پھیل گئی‘ ہم نے غروب آفتاب کا منظر دیکھنے کےلئے آخری کروز میں نشستیں بک کرا لیں‘ کروز نے پانچ بجے چلنا تھا اور جھیل میں اس مقام پر پہنچنا تھا جہاں سورج کی آخری کرنیں زمین کو الوداع کہتی ہیں‘ ہمارے پاس ایک گھنٹہ تھا‘ ہم شہر میں نکل گئے‘ شہر خواب کی طرح محسوس ہوتا تھا‘ آپ کو دنیا میں بہت کم ایسے شہر ملیں گے جن میں بیک وقت برف بھی ہو‘ پہاڑ بھی ہوں‘ جنگل بھی ہوں‘ مکان بھی ہوں‘ لوگ بھی ہوں‘ رش بھی ہو اور ساتھ ہی بڑی جھیل بھی ہو اور یہ سب کچھ جون کے مہینے میں دستیاب ہو‘ کوئینز ٹاﺅن ایک ایسا شہر ہے جس میں یہ تمام عناصر موجود ہیں اور بھرپور طریقے سے موجود ہیں‘ آپ اگر ایک بار اس شہر میں قدم رکھ لیں تو یہ باقی زندگی آپ کا پیچھا نہیں چھوڑے گا‘ یہ حسین یاد بن کر ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے گا‘ شہر مہنگا ہے‘ شاید مہنگائی کی وجہ وہ سیاح ہیں جو صرف خرچ کرنے کےلئے یہاں آتے ہیں یا پھر جنوب کی انتہا پر ہونے کی وجہ سے ہر چیز یہاں پہنچ کر مہنگی ہو جاتی ہے‘ لوگ بہت خوش اخلاق ہیں‘ یہ خوش دلی سے آپ کا استقبال کرتے ہیں‘ پورے نیوزی لینڈ میں سیاحوں کی مدد کےلئے انفارمیشن سنٹر بنے ہیں‘ آپ جس شیشے یا دروازے پر انگریزی زبان میں آئی کا لفظ دیکھیں آپ اندر گھس جائیں‘ آپ کو وہاں سے ہر قسم کی معلومات ملیں گی‘ ٹرانسپورٹ اور ہوٹل مہنگے ہیں‘ خوراک بھی سستی نہیں‘ اگر کوئی چیز سستی ہے تو وہ دائیں بائیں بکھرے مناظر ہیں اور یہ مناظر سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔
ہماری فیری کا وقت ہو گیا‘ ہم فیری میں سوار ہو گئے‘ موسم خراب تھا چنانچہ ہم غروب آفتاب کا منظر نہ دیکھ سکے‘ آدھ گھنٹے بعد اندھیرا ہو گیا‘ اندھیرے کے بعد کوئینز ٹاﺅن کے نئے رنگ سامنے آ گئے‘ ہم جھیل کے پیالے میں تیر رہے تھے‘ ہمارے چاروں اطراف پہاڑ تھے‘ پہاڑوں پر کوئینز ٹاﺅن آباد تھا‘ شہر کی روشنیاں جل رہی تھیں‘ یہ روشنیاں فیری کے ساتھ پانی میں گھلتی تھیں اور منظر کو مزید خواب ناک‘ مزید رنگیں بنا دیتی تھیں‘ ہم ٹرانس میں چلے گئے‘ ایک ایسے ٹرانس میں جس میں بارش تھی‘ ہڈیوں میں اترنے والی تیز ہوا تھی‘ جھیل تھی‘ جھیل میں تیرتی ہوئی فیری تھی اور فیری کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے پانی میں ہزاروں روشنیاں ہچکولے کھا رہی تھیں‘ وہ لمحہ صرف لمحہ نہیں تھا‘ وہ ایک فوٹو گراف تھا اور وہ فوٹو گراف ہمیشہ ہمیشہ کےلئے میرے ذہن کی دیواروں سے چپک گیا‘ میرے دماغ‘ میرے ذہن میں ایک کوئینز ٹاﺅن آباد ہو گیا۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…