اسلام آباد ( آن لائن)تحریک انصا ف کی حکومت نے اپنے دو پارلیمانی سال مکمل کر لئے تاہم قانون سازی کی رفتار سست رہی اور اس عرصہ میں صرف 28 بلز ہی قانون بن سکے ،اپوزیشن نے ہر دوسرے اجلاس میں واک آؤٹ کیا۔احتجاج ،ہنگامہ ،سپیکر ڈائس کا گھیرائو اور نعرے بازی ،اپوزیشن کا وطیرہ رہا ۔
قومی اسمبلی سے حاصل کردہ ریکارڈ کے مطابق 13 اگست 2018 کو وجود میں آنے والی موجودہ قومی اسمبلی اپنے دو سال مکمل کرچکی ہے اور تیسرے پارلیمانی سال کا آغاز صدر عارف علوی کے مجلس شوری سے خطاب کے بعد ہوگیا ہے ۔ ان دو سالوں کے دوران حکومت کو اپوزیشن کے احتجاج اور ہنگامہ آرائی کی وجہ سے قانون سازی میں مشکلات کا سامنا رہا جبکہ دو ماہ سے زائد عرصہ تک کورونا کی وجہ سے قومی اسمبلی کا اجلاس نہ ہونا بھی سست قانون سازی کی وجہ بنا دو سالوں میں قومی اسمبلی نے چالیس بلز پاس کیے جن میں سے30 دوسرے پارلیمانی سال میں پاس ہوئے ]چالیس بلز میں سے صرف اٹھائیس ایکٹ آف پارلیمنٹ بن سکے۔دو سالوں میں اراکین کے پیش کردہ نجی بلز کی تعداد 159 تھی جبکہ اس عرصہ میں 45 قراردادیں بھی منظور کی گئی، وزیر اعظم عمران خان دوسرے پارلیمانی سال میں 9 بار جبکہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف صرف 3 بار قومی اسمبلی میں آئے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے 3 بجٹ پیش کیے جبکہ دوسرے پارلیمانی سال میں ایوان میں 31آرڈینینس پیش کیے گئے جس میں بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کو اپیل کا حق دینے اور نیب قوانین میں ترامیم کے آرڈینینس بھی شامل تھے۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے مطالبات پورے کرنے کیلئے انسدادِ دہشت گردی کے قانون میں متعدد ترامیم کی گئیں۔
اپوزیشن نے ان دو سالوں میں حکومت کو ٹف ٹائم دیا اور متعدد مواقع پر ایوان مچھلی منڈی بنا، ہنگامہ آرائی اور احتجاج کی وجہ سے پارلیمنٹ کا ماحول کشیدہ رہا،کئی مواقع پر اراکین کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی اور سپیکر کے لئے ایوان چلانا مشکل ہوا ۔اپوزیشن نے سپیکر پر جانبداری کا الزام لگایا اور ان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا بھی اعلان کیا لیکن بعد میں یہ فیصلہ اپوزیشن نے واپس لے لیا۔قوانین میں ترامیم کے لیے پارلیمانی کمیٹی بھی اس سال بنائی گئی مگر یہ کمیٹی نیب کے قانون میں ترمیم پر اتفاق نہ کرسکی جس کی بڑی وجہ وزیر اعظم عمران خان کا نیب قوانین میں اپوزیشن کی ترامیم کو ماننے سے انکار تھا جس میں اپوزیشن نے ماضی کے کیسز کو نکالنے کی بات کی تھی اسی وجہ سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نیب کے قانون میں ترمیم کے معاملے پر ڈیڈ لاک برقرار رہا۔