ابوظہبی (این این آئی) متحدہ عرب امارات نے کہا ہے کہ اس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا فیصلہ ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے نہیں کیا ہے۔اس نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی امن ڈیل پر تنقید مسترد کردی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور قرقاش نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ یہ ڈیل ایران کے بارے میں نہیں،یہ یو اے ای، اسرائیل اور امریکا سے متعلق ہے۔
انھوں نے واضح کیا کہ اس کا کسی بھی طرح یہ مطلب نہیں کہ اس کے ذریعے ایران کے خلاف کسی طرح کی کوئی گروپ بندی کی جارہی ہے۔ٹرمپ انتظامیہ اور اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے اس سمجھوتے سے متعلق یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ اس کے ذریعے ایران کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں اور دنیا میں اس کو مزید تنہائی کا شکار کرنا چاہتے ہیں لیکن انور قرقاش نے اپنے ملک کے بارے میں ایسے کسی تاثر کی نفی کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یو اے ای اپنے ہمسایہ ملک کو اشتعال نہیں دلانا چاہتا ہے۔انھوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت ہی پیچیدہ ہیں۔ہمارے اپنے کچھ تحفظات ہیں مگر اس کے باوجود ہم محسوس کرتے ہیں کہ اس کے ساتھ متنازع امور کو سفارت کاری کے ذریعے طے کیا جانا چاہیے اور کشیدگی نہیں ہونی چاہیے۔اماراتی وزیر خارجہ نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے یو اے ای سے سفارتی تعلقات معطل کرنے کے دھمکی آمیز بیان کو بھی مسترد کردیا ہے اور اس کو دہرے معیار کا حامل قرار دیا ہے کیونکہ ان کے بہ قول ترکی نے توخود اسرائیل کے ساتھ تجارتی اور سیاسی تعلقات قائم کررکھے ہیں۔انور قرقاش کا کہنا تھا کہ ترکی میں ہر سال پانچ لاکھ سے زیادہ اسرائیلی سیاح آتے ہیں۔دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ سالانہ تجارت کا حجم دو ارب ڈالر ہے۔اسرائیل میں ترکی کا سفارت خانہ کھلا ہوا ہے۔اس صورت حال میں،میں تو خود سے یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا یہ اصولی مقف ہے یا نہیں۔انور قرقاش کا کہنا تھا کہ ہمیں فلسطینی علاقوں کو صہیونی ریاست میں ضم کرنے کے معاملے پر بہت تشویش لاحق تھی۔اس تصوراتی اعلامیے کے ذریعے ہم کم سے کم مذاکرات کو جگہ دینے کے تو قابل ہوئے ہیں۔