لندن (این این آئی)بس کنڈیکٹر سے ڈرائیور بننے اور پھر چھوٹی سی دکان کھول کر ارب پتی بننے والے پاکستانی نژاد برطانوی ارب پتی سر انور پرویز کی دولت میں کورونا وائرس کے باعث کم از کم 32 ارب روپے کی کمی ہوئی ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کے باعث نہ صرف سر انور پرویز بلکہ برطانیہ کے ایک ہزار ارب پتیوں کی دولت میں 54 ارب ڈالر یعنی پاکستانی 80 کھرب روپے سے زائد کی کمی ہوئی ہے۔
پاکستانی نژاد سر انور پرویز کی مجموعی دولت میں گزشتہ 2 ماہ کے دوران 32 ارب روپے سے زائد کمی کے بعد وہ برطانیہ میں امیر ترین افراد کی فہرست میں 50 ویں نمبر پر آگئے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق برطانوی اخبار کی جانب سے ارب پتی افراد کی تازہ فہرست کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں پہلی بار برطانیہ کے ارب پتی افراد کی دولت میں اتنی بڑی کمی دیکھی گئی اور وہ بھی صرف 2 ماہ کے دوران ارب پتی افراد اربوں روپے سے محروم ہوگئے۔دی سنڈے ٹائمز کی جانب سے ہر سال جاری کی جانے والی فہرست کے مطابق اس سال مجموعی طور پر کورونا وائرس کے باعث ایک ہزار ارب پتی افراد کی 54 ارب ڈالر کی دولت کم ہوئی اور کئی ارب پتی افراد 6 ارب ڈالر تک کی دولت سے محروم ہوگئے۔برطانوی ارب پتی افراد میں سے کم از کم 5 سے 6 ارب پتی لوگ گزشتہ 2 ماہ کے دوران پاکستانی 10 ارب روپے کی دولت سے محروم ہوگئے اور وہ امیر افراد کی فہرست میں بھی نیچے چلے گئے۔کورونا وائرس سے قبل پاکستانی نڑاد ارب پتی شخص سر انور پرویز امیر ترین افراد کی فہرست میں 42 ویں نمبر پر تھے مگر گزشتہ 2 ماہ میں 43 کروڑ 20 لاکھ امریکی ڈالر یعنی پاکستانی 32 ارب روپے سے زائد کی دولت گنوانے کے بعد وہ امیر افراد کی فہرست میں مزید نیچے چلے گئے اور تازہ فہرست میں وہ 50 ویں نمبر پر ہیں۔سر انور پرویز 1950 کی دہائی میں روزگار کے سلسلے میں پنجاب کے شہر راولپنڈی سے برطانیہ منتقل ہوئے تھے اور ابتدائی طور پر انہوں نے بس کنڈیکٹر کی نوکری کی تھی۔
بس کنڈیکٹر کے بعد وہ ڈرائیور بنے تھے اور اس کے بعد انہوں نے 10 سال تک کفایت شعاری سے کام لیتے ہوئے اپنے دیگر اہل خانہ کو بھی ایک ایک کرکے برطانیہ منتقل کیا اور پھر 1960 تک ان کے خاندان کے دوسرے افراد بھی کچھ کمائی کرنے لگے۔1963 میں انہوں نے انگلینڈ کے ارل کورٹس کے علاقے میں مصالحوں اور حلال گوشت کی چھوٹی سی دکان کھولی اور پھر انہوں نے کیش اینڈ کیری اسٹور کھولے اور رفتہ رفتہ ترقی کی منزلیں طے کرتے گئے۔
آگے چل کر سر انور پرویز نے بیسٹ وے نامی کمپنی بنائی جس کے تحت ہول سیل کے کاروبار سمیت سیمنٹ، فارمیسی، ریئل اسٹیٹ اور بینکنگ کے شعبے میں کاروبار کرنے لگے اور اسی گروپ کے تحت برطانیہ اور پاکستان سمیت دیگر ممالک میں بھی کاوروبار چل رہے ہیں۔سر انور پرویز کو ان کی خدمات کے عوض 1999 میں ملکہ برطانیہ نے اعزاز بھی دیا جب کہ انہیں ایک اچھی سماجی شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔دی سنڈے ٹائمز کی فہرست کے مطابق سر انور پرویز کے علاوہ چند ارب پتی افراد کی دولت میں بھی بہت ہی زیادہ کمی ہوئی ہے
اور ان کی دولت میں مجموعی طور پر 6 ارب ڈالر یعنی پاکستانی 8 سے 9 کھرب روپے تک کی کمی ہوئی۔دولت میں کمی کے باعث کئی ارب پتی افراد دولت مند افراد کی فہرست میں بھی نیچے چلے گئے جب کہ کچھ افراد حیران کن طور پر ترقی کرکے اوپر آگئے۔حیران کن طور مؤجد جیمس ڈائسن کی دولت میں اضافہ ہوا اور وہ 2018 کے بعد پہلی بار وبا کے دنوں میں برطانیہ کے سب سے امیر شخص بن گئے اور ان کی دولت 16 ارب 20 کروڑ ڈالر سے زائد ہوگئی۔کورونا وائرس کی وجہ سے جن افراد کی دولت میں نمایاں کمی ہوئی ان میں بھارتی نژاد ارب پتی بھائی ہندوجا برادرز بھی ہیں جن کی دولت میں 6 ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے اور ان کی دولت 22 ارب ڈالر سے کم ہوکر 14 ارب ڈالر تک جا پہنچی۔
اسی طرح بھارتی نژاد ارب پتی شخص لکشمی متل کی دولت میں بھی 4 ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے اور اب ان کی دولت 7 ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئی اور وہ امیر افراد کی فہرست میں 19 ویں نمبر پر آگئے۔دی سنڈے ٹائمز کی فہرست کے مطابق اگرچہ کورونا وائرس کی وجہ سے گزشتہ 2 ماہ میں برطانوی ارب پتی افراد کی دولت میں 54 ارب ڈالر کی کمی ہوئی تاہم اس کے باوجود لندن کو ارب پتی افراد کا دارالحکومت کہا جا سکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق اس وقت بھی لندن میں 89 ارب پتی افراد رہائش پذیر ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ حیران کن طور پر زیادہ تر ارب پتی کاروباری افراد کورونا کے باعث حکومت سے مدد کے خواہاں ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ متعدد ارب پتی افراد نے کورونا کی وجہ سے کئی ملازمین کو جبری رخصت پر بھیج دیا اور انہوں نے کاروبار بند کردیے، اس لیے اب وہ چاہتے ہیں کہ حکومت مالی طور پر ان کی مدد کرے۔رپورٹ کے مطابق ارب پتی افراد چاہتے ہیں کہ برطانوی حکومت نہ صرف ان کی مالی مدد کرے بلکہ وہ انہیں ٹیکس میں بھی چھوٹ دے۔