اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک )سینئر کالم نگار ارشاد بھٹی اپنے کالم ’’ میں نہ مانو !‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔آپ کے زیر کفالت، ان کے پاس دولتیں کہاں سے آ گئیں، جواب ملا، میں ان کا ذمہ دار نہیں، جو کچھ ان سے متعلق وہ انہی سے پوچھیں، نیب ٹیم کے ایک رکن نے کہا، جس بلٹ پروف لینڈ کروزر پر آپ آئے، یہ شریف فیڈز مطلب آپ کے بچوں کے نام پر رجسٹرڈ، شہباز شریف بات کاٹ کر بولے، تو کیا میں اپنے
بچوں کی گاڑی استعمال نہیں کر سکتا، نیب ٹیم رکن نے کہا، کر سکتے ہیں لیکن اسی طرح آپ بچوں کی دولت بھی استعمال کر سکتے ہیں۔اچھا یہی بتا دیں، یہ گاڑی کیسے خریدی، جواب آیا، میں کہہ چکا جو کچھ میرے بچوں سے متعلق وہ انہی سے پوچھیں۔شہباز شریف سے پوچھا گیا، آپ کے نام پر یہ جائیدادیں، اثاثے یہ کہاں سے آئے، جواب دیا، مجھے وراثت میں ملے، نیب ٹیم نے ہاؤس آف شریفس کا وراثت معاہدہ شہباز شریف کے آگے رکھ کر کہا، اس حساب سے تو 2009ء میں آپ کے حصے میں صرف رمضان شوگر مل آئی۔باقی ملیں، فیکٹریاں، کمپنیاں، پیسے، زمینیں کہاں سے آئیں، شہباز شریف وراثت معاہدہ دیکھ کر حیران رہ گئے، بولے، اچھا یہ آپ کے پاس بھی، لیکن اس سوال کا جواب، میں اپنا ریکارڈ دیکھ کر اگلی پیشی پر دوں گا، نیب ٹیم نے پوچھا، لندن میں آپ کے پاس 4فلیٹس تھے، دو بیچ دیے، دو اب بھی ہیں، یہ چاروں فلیٹس خریدنے کیلئے پیسے کہاں سے آئے، شہباز شریف کا جواب تھا، بینکوں اور دوستوں سے قرضہ لیا۔نیب ٹیم نے پوچھا، بینکوں سے ادھار لینے کا ریکارڈ، شہباز شریف بولے، آپ کیسی باتیں کر رہے، برطانیہ میں کورونا قیامت آئی ہوئی، سب ادارے بند، آپ ریکارڈ مانگ رہے، نیب ٹیم نے کہا، آپ کورونا سے پہلے بھی لندن ریکارڈ لینے گئے تھے، کیوں نہ لا سکے، جواب دیا، اگلی مرتبہ لندن جا کر ریکارڈ لے آؤں گا، نیب ٹیم نے کہا، اچھا ان دوستوں کے نام بتا دیں، جن سے قرضہ لیا، چند لمحے سوچ کر شہباز شریف بولے، ابھی یاد نہیں آرہا، اگلی مرتبہ بتا دوں گا۔شہباز شریف سے پوچھا گیا،
آپ کے خاندان کو ایک ارب سے زیادہ دولت ٹی ٹیوں سے آئی، ٹی ٹیاں بھیجنے والوں میں وہ بھی جنہوں نے لندن، دبئی سے ٹی ٹیاں بھیجیں، مگر انہوں نے لندن، دبئی کیا جانا تھا، ان کے تو پاسپورٹ بھی نہیں بنے ہوئے تھے۔یہ سب کیا ہے، شہباز شریف بولے، یہ سب انہی سے پوچھیں، جنہوں نے ٹی ٹیاں بھجیں، نیب ٹیم نے کہا، اچھا یہ ہی بتائیں، آپ پارٹی صدر، آپ نے پارٹی فنڈز کے نام پر اپنے ملازمین کے
اکاؤنٹس کھلوا رکھے تھے، جو پارٹی فنڈز دیتا، پیسہ ان ملازمین اکاؤنٹس میں جاتا، بعد میں وہ کیش نکال کر آپ تک پہنچاتے، ان میں سے کچھ ملازمین ہمارے پاس گرفتار، وہ یہ مان چکے ہیں۔شہباز شریف نے کہا، مجھے کیا پتا، آپ انہی ملازمین سے پوچھیں کہ انہوں نے پارٹی فنڈز کے نام پر کیوں اکاؤنٹس کھول رکھے تھے۔یہ تھے دو چار سوال، ان کے جواب، آپ کو اندازہ ہو ہی گیا ہوگا کہ ایک دھیلے کی
کرپشن نہ کرنے والے خادم اعلیٰ کی عملی پرفارمنس کیا بتا رہی، گو کہ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ رپورٹ، مشکوک 20کروڑ اکاؤنٹس منتقلی ریکارڈ اور 5مشکوک ٹرانزکشنز کاغذات دیکھ کر شہباز شریف پریشان، لاجواب ہوئے، مگر ان کی پالیسی سپرہٹ، میں نہ مانوں، جو کرنا ہے کر لیں، جو پوچھنا ہے پوچھ لیں، میرا ایک ہی جواب، میں نہ مانوں۔