اسلام آباد(آن لائن)گندم کی پیداوار کم ہونے اور پنجاب حکومت کی ناقص حکمت عملی کے باعث آٹے کا ایک اور خوفناک بحران پیدا ہونے کے قریب تر ہے ، امدادی قیمت کم ہونے کے باعث کاشتکاروں نے گندم کی بوائی میں دلچسپی ظاہر نہیں کی ہے جس کی وجہ سے پیداواری ہدف پورا ہونا ناممکن ہو گیا ہے ، بے وقت بارشوں نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ۔
پنجاب حکومت بار دانے کی بروقت تقسیم میں ناکام رہی ، جس سے کاشتکاروں نے اپنی گندم کو خود ہی محفوظ کرلیا ، بیوپاریوں پر پابندی کے باعث بھی گندم مراکز تک پہنچنے میں ناکام رہی ، پنجاب کا پیداواری ہدف 45میٹرک ٹن مقرر کیا گیا لیکن 6مئی تک صرف 20میٹرک ٹن گندم سرکاری طورپر خریدی جاسکی۔آٹے کا نیا بحران پنجاب سمیت کے پی کے ، سندھ اور بلوچستان کو بھی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔مصدقہ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ پیداواری ہدف میں ناکامی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ فروری اور مارچ میں کاشتکاروں تک باردانے نہیں پہنچایا جاسکا ، جس کی وجہ سے سرکاری مراکز گندم نہ اٹھا سکے اور کم پیداوار ہونے کی وجہ سے کاشتکاروں نے باردانے کے حصول کے لئے دلچسپی کا اظہار بھی نہیں کیا ۔اس کے علاوہ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے بیوپاریوں پر گندم خریداری کی پابندی عائد کردی تھی اور کوئی بھی آڑھتی25 بوریوں سے زیادہ گودام میں نہیں رکھ سکتا اور نہ ہی تین دن سے زیادہ ذخیرہ کی جاسکتی ہے ، چنانچہ پنجاب حکومت کے خوف سے بیوپاریوں نے گندم خریدنے میں دلچسپی نہیں لی جس سے ہدف کا حصول مزیدناممکن ہو گیا ہے۔ذرائع کے مطابق اول تو کاشتکاروں نے امدادی قیمت کم ہونے کی وجہ سے گندم کی کاشت میں زیادہ دلچسپی نہ دکھائی اور جوگندم کاشت ہوئی تھی اس کو بے وقت بارشوں نے تباہ کردیا اورپیداواری ہدف مزید نیچے چلا گیا ۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی خواہش ہے اب حکومت امدادی قیمت میں اضافے کے لئے غور کررہی ہے لیکن اس کا فائدہ اگر ہوا تو اگلے سال ہی ہوگا ۔سرکاری مراکز کے ریکارڈ کے مطابق راولپنڈی کے بارانی علاقوں سے گندم کی پیداواری ہدف 8341 میٹرک ٹن مقرر کیا گیا تھا لیکن ابھی تک صرف 691 میٹرک ٹن گندم خریدی جاسکی ہے ، گوجرانوالہ ڈویژن کا پیداواری ہدف 486635 میٹرک ٹن رکھا تھا لیکن فی الحال 79125 میٹرک ٹن گندم خریدی جاسکی ۔ساہیوال ڈویژن میں بھی حکومت سرکاری ہدف سے بہت دور دکھائی دیتی ہے اور چار لاکھ میٹرک ٹن کی بجائے صرف81 ہزار ٹن گندم خریدی جاسکی ہے۔
سرکاری ریکارڈ کے مطابق بہاولپور ڈویژن کاہدف 893269 میٹرک ٹن تھا لیکن 565960 خریدی گئی ہے ، ملتان ڈویژن کا ہدف 734575 میٹرک تھا لیکن فی الحال 259470 میٹرک ٹن گندم خریدی گئی ہے ، لاہور ڈویژن کا ہدف 344798میٹرک ٹن تھا لیکن ابھی تک 88ہزار میٹرک ٹن گندم خریدی گئی ہے چونکہ پنجاب سے ہی سندھ ، کے پی کے اور بلوچستان میں غذائی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے گندم بڑے پیمانے پر ان صوبوں میں بھیجی جاتی ہے لیکن فی الحال اس دفعہ پنجاب بذات خود بڑے خسارے میں جارہا ہے ۔اس لئے سرکاری ذرائع کاخیال ہے کہ اکتوبر نومبر2020 میں آٹے کی قیمت 100روپے فی کلو تک جاسکتی ہے اور حکومت کو عوام کو مطمئن رکھنے کے لئے گندم باہر سے منگوانا پڑے گی ۔