اسلام آباد (آن لائن)کورونا وائرس کے علاج کیلئے ویکسین کا دعوی کرنے والی بہت سی پوسٹس سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں۔جبکہ ڈبلیو ایچ او نے کہا ہے کہ ابھی تک کوئی ویکسین موجود نہیں ہے اور کسی بھی نئی ویکسین کو عوامی طور پر دستیاب ہونے میں کم از کم 18 ماہ لگ سکتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل اور امریکہ کی سان ڈیاگو لیب نے COVID-19 کے لئے ویکسین تیار کی ہے۔
علاوہ ازیں اسرائیل میں بھی COVID-19 کے خلاف ویکسین تیار کی جاچکی ہے۔ جبکہ اس بات کاحقیقت سے دور دور تک واسطہ نہیں ہے۔پاکستان کی ایک ماہرپروفیسر عظمیٰ خورشید نے القمرآن لائن کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ویکسین تیار کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں وائرس کو کم طاقتور بناتے ہوئے، پوٹینسی لیول کم کیا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے MIGAL ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے فروری 2020 میں ایک پریس ریلیز میں کہا تھا کہ وہ ابھی COVID-19 کے لئے ایک ویکسین تیار کرنے پر کام کر رہا ہے۔ساوتھ ایشین و ائر کے مطابق گمراہ کن فیس بک پوسٹوں میں “کوروناوائرس ویکسین” کے عنوان سے شیشی کی تصویر اسٹاک فوٹو ویب سائٹ سے لی گئی ہے۔ اسرائیل کے MIGAL ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے ایوین کورونا وائرس برونکائٹس وائرس (IBV) کے لئے ایک ویکسین تیار کی ہے۔ یہ ویکسین مرغیوں کے لئے ہے نہ کہ انسانوں کے لئے۔ میگال نے دریافت کیاکہ مرغی کے کوروناورس میں انسانی COVID-19 کے ساتھ اعلی جینیاتی مماثلت موجود ہے، اور یہ ایک ہی انفیکشن میکانزم پر عمل کرتا ہے، اس طرح بہت ہی کم عرصے میں ایک موثر انسانی ویکسین تیار کرنے کاامکان بڑھ جاتا ہے۔ میگال نے بتایا ہے کہ وہ ویکسین تیار کرنے پر کام شروع کر رہے ہیں جس کو طبی طور پر آزمایا جاسکتا ہے اور اسے عالمی سطح پر دستیاب بین الاقوامی تنظیموں کی منظوری اور پیٹنٹ کے ساتھ ساتھ دیگر عوامل اور انسانی آزمائشوں سے گزرنے میں مزیدکئی ماہ لگیں گے۔
اس طرح یہ ویکسین ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ اسی طرح ایک اور گمراہ کن دعویٰ کیا جارہا ہے کہ سان ڈیاگو کی ایک لیب نے ایک ویکسین تیار کرلی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سان ڈیاگو میں ایک لیب میں چینی سائنس دانوں نے صرف حِساب و شمار کا ابتدائی عمل (الگورتھم)ہی ڈیزائن کیا ہے۔ سورینٹو ویلی میں واقع انویو فارماسیوٹیکل، اس سے قبل زیکا وائرس، مشرق وسطی میں سانس کی ویکیسین (MERS)اور ایبولا کے لئے ویکسین بنا چکی ہے۔ ساوتھ ایشین وائر کے مطابق فارماسیوٹیکلز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ٹریورس اسمتھ نے کہاکہ
ابھی صرف ویکسین کا الگورتھم ڈیزائن کیا گیا ہے لیکن اصل ویکسین پر کام نہیں شروع ہوا۔ ویکسین کی نشوونما کیلئے لاتعدادآزمائشوں اور منظوریوں کی ضرورت ہے۔ ویکسین کا ٹیسٹ چوہوں اور گنی کے سورپر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد انسانی مریضوں کے ایک گروپ پر اس کی آزمائش کی جائے گی لیکن ابھی تک انسانوں پر جانچ کے لئے ایف ڈی اے کی منظوری نہیں ملی ہے۔ انسانی آزمائشیں سخت مراحل کے بعد کی جاتی ہیں اور ایک بار کلیئر ہوجانے پر ان کے موثر ہونے کے بعد ہی اسے استعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ ساوتھ ایشین وائرکے مطابق تحقیق جاری ہے لیکن یہ ویکسین جلد مکمل ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے بتایا ہے کہ فی الحال COVID-19 کا براہ راست کوئی علاج نہیں ہے۔ صحت یاب ہونے والے لوگ صرف اپنی قوت مدافعت کی وجہ سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔