دوحہ (این این آئی) امن معاہدے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ آج امن کی فتح کا دن ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکا تمام فریقین پر زور دیتا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے اپنی توجہ مرکوز کریں۔امریکی سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ تمام افغان امن اور خوشحالی کے ساتھ رہنے کا حق رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ افغانستان کے تمام طبقوں کی آواز سننے کے نتیجے میں ہی پائیدار استحکام ممکن ہے۔
مائیک پومپیو نے قدرے حتمی لہجے میں کہا کہ تمام امور کے امریکا اور اس کے عوام کی سیکیورٹی لازمی ہے۔انہوں نے کہاکہ امن کے بعد افغانستان کے لوگوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا۔افغان طالبان کے سینئر رہنما ملا عبدالغنی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اور طالبان کے مابین امن معاہدہ افغانستان کی مجاہد قوم اور عالمی برداری کے لیے خوش آئند ہے۔انہوں نے کہا کہ خود مختار سیاسی فورس (جماعت) درکار ہے جو خطے کے دیگر ممالک اور عالمی برادری کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کی بنیاد رکھے۔ملا عبدالغنی نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد افغان قوم اسلامی نظام کے تحت ترقی کی بنیاد رکھے گی۔انہوں نے کہا کہ تمام افغان دھڑوں پر زور دیتا ہوں کہ وہ سنجیدگی اور ایمانداری کے ساتھ تمام اختلاف کو نظر انداز کر کے ایک مشترکہ اسلامی نظام تشکیل دیں جو ملک کی ترقی کا باعث بنے۔افغان طالبان رہنما نے امن معاہدے میں درپیش رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا اور تشکر کا اظہار کیا۔انہوں نے چین، ازبکستان، روس، انڈونیشیا، ناروے سمیت دیگر ممالک کا بھی شکریہ ادا کی جنہیں نے افغان امن معاہدے کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہاکہ دوحہ امن معاہدے سے نہ صرف امریکہ اور طالبان کے درمیان 19 سالہ جنگ کا خاتمہ ہوگا بلکہ پاکستان سمیت خطے میں پائیدار امن کی راہ ہموار ہوگی۔انہوں نے کہاکہ دوحہ معاہدے کے تحت افغانستان میں مکمل جنگ بندی کو یقینی بنایا جائے گا،
معاہدے کے فالو اپ میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مستقل قیام امن کے لیے مذاکرات ہوں گے۔معاہدے سے افغانستان میں موجود 14 ہزار امریکی اور 17 ہزار نیٹو فوجیوں کے انخلا کی راہ ہموار ہو گی۔امریکا اور طالبان کے درمیان 2018 سے جاری مذاکرات کے کئی کامباب اور ناکام ادوار ہوئے، ان مذاکرات کے نتیجے اور طرفین کی طرف سے امن کی خواہش کے نتیجے میں دوحہ میں افغان امن معاہدے پر امریکا اور طالبان کے دستخط در اصل معاہدے کے سہولت کار پاکستان کے بیانیے کی فتح ہے
جس میں پاکستان کہہ چکا کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ملا عبدالغنی برادر نے کہا کہ ہم تمام ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں، تمام افغان گروپس کو کہتا ہوں کہ ایک مکمل اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے اکٹھے ہوں۔قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکا اور طالبان کے درمیان طے پانے والا معاہدہ نہ صرف تاریخی بلکہ افغانستان میں امن، سلامتی اور خوشحالی کی جانب بہترین سنگ میل ثابت ہو گا۔دلچسپ بات یہ کہ طالبان کی قید میں 3 سال رہنے والے آسٹریلین یونیورسٹی کے پروفیسر ٹموتھی ویکس بھی معاہدے کی تقریب میں شرکت کے لیے دوحہ میں موجود تھے۔
مذکورہ معاہدے کے نتیجے میں کابل حکومت اور طالبان میں بات چیت ہونے کی توقع ہے جو اگر کامیاب ہوئے تو افغان جنگ بالآخر اختتام پذیر ہوجائے گی افغان حکومت کے ذرائع نے بتایا کہ دوحہ میں طالبان سے معاہدہ ہوجانے کے بعد امریکا کابل میں افغان حکومت کے ساتھ ایک علیحدہ تقریب منعقد کرے گا۔خیال رہے کہ امریکا کے 12 سے 13 ہزار فوجی اس وقت افغانستان میں موجود ہیں جس میں معاہدے کے چند ماہ کے عرصے میں کمی کر کے 8 ہزار 600 کردی جائے گی جبکہ مزید کمی طالبان کی افغان حکومت سے روابط پر منحصر ہے جنہیں وہ کٹھ پتلی حکومت کہتے ہیں۔یہاں یہ واضح رہے کہ
امریکا اور طالبان کے درمیان افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور امریکی افواج کے انخلا کے لیے بات چیت کا سلسلہ تقریباً ڈیڑھ برس سے جاری تھا جس میں طالبان کے حملے میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے باعث گزشتہ برس ستمبر میں تعطل ایا تھا تاہم مذاکرات دسمبر میں بحال ہوگئے تھے۔ادھر امریکی میڈیا رپورٹ میں کہا گیا کہ معاہدے کے تحت افغان جیلوں سے 5 ہزار طالبان قیدی رہا ہونے ہیں لیکن اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں کہ افغان حکومت اس پر عمل کرے گی یا نہیں۔ادھر فرانسیسی میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغان عوام پر نئے مستقبل سے فائدہ اٹھانے کے لیے زور دیتے ہوئے کہا کہ
اس معاہدے سے 18 سالہ تنازع ختم ہونے کا امکان ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر طالبان اور افغانستان کی حکومت ان وعدوں پر قائم رہتے ہیں تو ہمارے پاس افغانستان میں جنگ ختم کرنے اور اپنے فوجیوں کو گھر واپس لانے کا بہترین راستہ ہوگا۔امریکی صدر نے کہا کہ وہ امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو کو معاہدے پر دستخط کا مشاہدہ کرنے کے لیے بھیج رہے ہیں اور سیکریٹری دفاع مارک ایسپر کابل حکومت کے ساتھ علیحدہ سے مشترکہ اعلامیہ جاری کریں گے۔علاوہ ازیں برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان رہنما اور پاکستان میں طالبان حکومت کے سابق سفارتکار ملا عبدالسلام ضعیف نے کہا کہ طالبان کے لیے معاہدے کی شرائط سخت نہیں ہے
سوائے اس کے کہ افغان تنازع سیاسی بات چیت کے ذریعے حل ہو۔انہوں نے کہا کہ طالبان نے اس پر مشورہ بھی کیا ہے کیوں کہ طالبان نہیں چاہتے کہ سوویت یونین کے نکلنے کے بعد افغانستان میں مجاہدین والا تجربہ دہرایا جائے بلکہ ان کی خواہش ہے کہ جنگ کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل شروع ہو جو صلح اور اتفاق سے ہی ممکن ہے اور یہ افغانوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔انہوں نے کہاکہ 2001 میں امریکا نے افغانستان میں جو لڑائی شروع کی، اس کا انتخاب افغانستان کے لوگوں یا طالبان نے نہیں کیا تھا بلکہ وہ لڑائی افغانستان پر مسلط کی گئی تھی اور امریکا نے پوری طاقت، غرور، دنیا اور پڑوسیوں کی مدد سے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہاکہ
2008 میں امریکا اور دنیا کی سوچ میں تبدیلی پیدا ہوئی کہ افغانستان کو طاقت کے استعمال سے نہیں چلایا جا سکتا بلکہ ایک سیاسی عمل کی ضرورت ہے لیکن طالبان نے وہ سب کچھ اس طرح نہیں مانا جس طرح امریکا چاہتا تھا تو طالبان کی سوچ میں نہیں بلکہ دراصل امریکا کی سوچ میں تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ معاہدے میں طالبان کی تمام شرائط تسلیم کی گئی ہے اور امریکا کی شرائط کچھ ایسی ہیں کہ افغانستان افغانوں کا ہو اور کسی کے خلاف استعمال نہ ہو، افغان بھی یہی چاہتے ہیں، اگرچہ اس سے قبل ایسا ہوچکا ہے تاہم مستقبل میں افغانستان صرف افغانوں کا ہوگا اور کسی کا نہیں جبکہ یہاں کوئی دخل اندازی بھی نہیں کرسکے گا۔انہوں نے کہا کہ امریکا نے اپنی شرائط منوانے کی کوشش کی لیکن وہ تسلیم نہیں کی گئیں،
امریکا تقریباً اس بات پر رضامند ہے کہ وہ 14 ماہ میں افغانستان سے فوج کا انخلا کردیں گے جو اچھی بات ہے۔افغان حکومت کے ساتھ بات کی شرط معاہدے میں شامل ہونے کی تردید کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ افغانوں کے درمیان مذاکرات ہوں گے یہ وہ مشکل کام ہے جس کا طالبان کو سامنا ہوگا۔انہوں نے بتایا کہ طالبان نے اب تک جو بات چیت کی ہے وہ افغانستان اسلامی امارت کے نام سے کی اور جو معاہدہ ہو رہا ہے، وہ بھی اسی نام سے ہو گا۔انہوں نے کہاکہ طالبان اپنی امارت سے دستبردار نہیں ہوئے، جب وہ امارت پر ڈٹے ہوئے ہیں تو دوسری کسی حکومت کا وجود نہیں مان سکتے۔حکومت چلانے میں ماضی کی غلطیوں کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں لیکن عقل مند وہ ہوتے ہیں
جو غلطیوں کو مانتے ہوئے انہیں دہرانے سے اجتناب کریں۔انہوں نے کہاکہ طالبان کی تحریک کے آغاز اور آج میں یہ فرق ہے کہ طالبان کے علم، سفارت کاری اور تجربے میں فرق آیا ہے جو اب بین الاقوامی ہو گیا ہے اور یہ خاصہ مثبت ثابت ہوگا۔مزید برآں اس تاریخی موقع کے حوالے سے قطر میں مقیم پاکستانیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے کہا کہ امریکا اورافغان طالبان کے درمیان امن معاہدے سے خطے میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن سے وسطی ایشیا کے ساتھ ہمارے روابط بڑھیں گے۔وزیرخارجہ نے کہا کہ امن واستحکام سے پاکستان اورافغانستان کے درمیان دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے شاندار مواقع پیدا ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن سے پاکستان کو کاسا1000منصوبے
سے استفادہ کرنے اور ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کا واضح مؤقف ہے کہ افغان امن کا قیام افغان قیادت کے تحت خود افغانوں نے یقینی بنانا ہے اور یہ کہ افغان امن پاکستان کے قومی مفاد میں ہے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ دوحہ معاہدہ امریکا کی آج تک کرہ عرض پر لڑی جانے والی طویل ترین جنگ کا خاتمہ اور افغان عوام کے لیے امید اور روشنی کی ایک کرن ہو گا۔قبل ازیں ممبر طالبان قطر آفس ملا شہاب الدین دلاور نے امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغان امن زلمے خلیل زاد سے دوحہ کے مقامی ہوٹل میں ملاقات کی اور ہاتھ ملایا۔زلمے خلیل زاد نے سوالوں کا جواب دینے سے گریز کیا جبکہ ملا شہاب کا کہنا تھا کہ آج بڑا تاریخی دن ہے۔طالبان رہنما کا مزید کہنا تھا کہ غیر ملکی فوجوں کے انخلاء سے ملک میں امن آئے گا
اور افغان عوام اس معاہدے سے بہت خوش ہیں۔دوسری جانب قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا کہ سات روز میں افغانستان میں کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا، معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد ہم آگے چلیں گے۔ترجمان افغان طالبان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمسایہ ملک ہے جس سے ہمارے ثقافتی اور تاریخی تعلقات ہیں، 40 سال سے 40 لاکھ افغان باشندے پاکستان میں تھے، اب بھی پاکستان میں 20 لاکھ افغان مہاجرین ہیں جب کہ روسی مداخلت کے وقت بھی پاکستان کا کردار رہا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ افغان مسئلے کے پْرامن حل کی حمایت کی ہے، افغان طالبان چاہتے ہیں افغانستان امن کا گہوارہ بنے اور تجارت بھی ہو، ہم پاکستان سمیت تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں کیونکہ اچھے تعلقات سب کے مفادات میں ہیں۔سہیل شاہین نے کہا کہ کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ افغان سرزمین کسی اور کے خلاف استعمال کرے، سرحد سے باہر افغان طالبان کی کوئی پالیسی اور ایجنڈا نہیں ہے، امریکا سے معاہدے میں یہ تمام باتیں شامل ہیں جس پر وہ پْرعزم ہیں۔