واشنگٹن (نیوزڈیسک)’دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ میں قبائل کی شرکت کلیدی‘ 18 جون 2015 شیئر  ایش کارٹر کے علاوہ امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی نے بھی کمیٹی کو عراق اور شام کے بارے میں بریفنگ دی اعلیٰ امریکی حکام نے دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑائی کے لیے عراقی حکومت کے عزم پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ عراق میں رواں برس موسمِ خزاں تک 24 ہزار نئے فوجیوں کی بھرتی کا ہدف حاصل کرنا ناممکن ہے۔ امریکی وزیرِ دفاع ایشٹن کارٹر نے یہ بات واشنگٹن امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں عراقی حکومت کے تمام محکموں اور شعبہ جات کی جانب سے زیادہ مصمم عزم کے اظہار کی ضرورت ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اگرچہ موسمِ خزاں تک 24 ہزار نئے فوجیوں کی بھرتی کا ہدف مقرر کیا گیا تھا تاہم اب تک صرف سات ہزار فوجی ہی بھرتی کیے گئے ہیں۔ ایش کارٹر نے کہا کہ امریکی تربیت کار کسے تربیت دیں ’جب ہمارے پاس کافی تعداد میں نئے فوجی ہی نہ ہوں۔‘ امریکی وزیرِ دفاع نے دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ کے لیے عراق کے قبائل کو بھی تیار کرنے اور ساتھ ملانے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری کوشش کثیر الفرقہ بنیادوں پر ہونی چاہیے۔‘ میں یہ مشورہ نہیں دوں گا کہ ہم امریکی افواج کو عراقی فوج کو مضبوط بنانے کے لیے خطرے میں ڈالیں۔ اگر وہ اپنے طرزِ زندگی کو داعش سے لاحق خطرے کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہو رہے تو ہم انھیں کھڑا کرنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ جنرل مارٹن ڈیمپسی اس سوال پر کہ کیا مزید 450 فوجی دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ پر اثرانداز ہو سکتے ہیں، امریکی وزیرِ دفاع کا کہنا تھا کہ تعداد سے کہیں زیادہ اہم جنگ کا مقام ہے جو کہ اکثریتی آبادی کے دل میں واقع ہے۔ امریکہ پہلے بھی عراقی حکومت پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ ملک کے تینوں بڑے نسلی گروہوں کو زیادہ نمائندگی دے اور تینوں کو حکومت کا حصہ بنایا جائے۔ امریکی فوج کے انسٹرکٹرز کئی ماہ سے عراق میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑنے والے فوجیوں کی تربیت اور اس سلسلے میں عراقی حکام سے مشاورت میں مصروف ہیں۔ تاہم امریکی فوجی خود تاحال دولتِ اسلامیہ کے خلاف میدانِ جنگ میں نہیں اترے ہیں۔ اس سلسلے میں حزبِ اختلاف کی جماعت ریپبلکن پارٹی کا موقف ہے کہ امریکہ کو اس سلسلے میں صرف عراقی فوج پر ہی انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ امریکی صدر براک اوباما عراق میں مزید فوجی بھیجنے کی منظوری دینے کی تیاری میں ہیں جو دولت اسلامیہ کے خلاف برسر پیکار مقامی فوجوں کو تربیت فراہم کریں گے ایش کارٹر کے بیان کے بعد آرمڈ سروسز کمیٹی کے ریپبلکن سربراہ سینیٹر میک تھورن بیری کا کہنا تھا کہ یہ احساس موجود ہے کہ ہم ایک مشکل وقت میں جی رہے ہیں اور اس سلسلے میں امریکی پالیسی اور حکمتِ عملی ناکافی ہے۔ ایش کارٹر کے علاوہ امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے سربراہ جنرل مارٹن ڈیمپسی نے بھی کمیٹی کو عراق اور شام کے بارے میں بریفنگ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہ مشورہ نہیں دوں گا کہ ہم امریکی افواج کو مقامی فوج کو مضبوط بنانے کے لیے خطرے میں ڈالیں۔‘ جنرل ڈیمپسی نے کہا کہ ’اگر وہ اپنے طرزِ زندگی کو داعش سے لاحق خطرے کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہو رہے تو ہم انھیں کھڑا کرنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔‘ یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکی حکام نے دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ میں عراقی حکومت کے عزم پر سوال اٹھایا ہے۔ امریکی تربیت کار کسے تربیت دیں جب ہمارے پاس کافی تعداد میں نئے فوجی ہی نہ ہوں: ایش کارٹر دو ماہ قبل رمادی پر دولتِ اسلامیہ کے قبضے کے بعد بھی وزیرِ دفاع ایشٹن کارٹر نے کہا تھا کہ رمادی میں عراق افواج کی شکست ظاہر کرتی ہے کہ ان میں شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑنے کے عزم کی کمی ہے۔ اوباما انتظامیہ پر حالیہ چند ماہ میں متعدد بار عراق میں کسی مربوط حکمتِ عملی کی عدم موجودگی کا الزام لگ چکا ہے۔ سینیٹ کی کمیٹی کی سماعت کے دوران وزیرِ دفاع ایش کارٹر اور جنرل مارٹن ڈیمپسی سے بھی مستقبل کی حکمتِ عملی کے بارے میں سوالات کیے گئے تو ان کا جواب یہی تھا کہ امریکہ اس وقت صرف ایک امدادی کا کردار نبھا رہا ہے اور یہ دراصل عراقی حکومت کا ہی کام ہے کہ وہ خود کو اس مشکل سے نکالے