جموں( آن لائن ) 25نومبر کو دنیا بھر میں خواتین پرتشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا گیا ۔مقبوضہ کشمیرمیں کشمیر ی خواتین بھارتی فوجیوں اورپولیس اہلکاروںکی طرف سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا شکار ہیں ۔ اس دن کے حوالے سے جاری کردہ ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میںجنوری 1989ء سے اب تک بھارتی فوجیوں نے ایک ہزارسے زائد خواتین سمیت 95459افرادکو شہید کیا
۔بھارتی فوجیوںنے جنوری 2001سے اب تک کم سے کم670خواتین کو شہید کیا۔1989 میں علیحدگی پسندجدوجہد شروع ہونے کے بعد سے کشمیر میں خواتین کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی ، تشدد کا نشانہ بنایا گیا ، معذور اور قتل کیا گیا۔ کشمیری خواتین دنیا میں بدترین جنسی تشدد کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 9فیصد کشمیری خواتین جنسی استحصال کا شکار ہوئی ہیں۔ رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ 1989ء سے اب تک 22,905 خواتین بیوہ ہوئیںجبکہ بھارتی فوجیوںنے 11,140خواتین کی بے حرمتی کی جن میں کنن پوشپورہ میں اجتماعی زیادتی کا شکار ہونے والے خواتین بھی شامل ہیں۔بھارتی فوج کی چوتھی اجپوتانہ رائفلز کے جوانوں نے 23 فروری 1991 کو جموں و کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے ایک گاؤں کنن پوش پورہ میں سرچ آپریشن شروع کیا ۔جس کے بعد 23 خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ ہیومن رائٹس واچ سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق خواتین کی تعداد اس سے زیادہ ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ شوپیاں میں جنسی زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی دو خواتین بھی اس میں شامل ہیں۔ایک نیوز ویب سائٹ القمر کے مطابق بھارتی پولیس کے اہلکاروں نے گزشتہ سال کٹھوعہ میں آٹھ سالہ بچی آصفہ بانو کو اغواء اور بے حرمتی کرنے کے بعد قتل کردیا تھا ۔ ساؤتھ ایشین وائر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج خواتین کی عصمت دری کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ پورٹ کے مطابق زیادتی کے بیشتر واقعات محاصرے اور تلاشی کے آپریشنز کے دوران پیش آئے ۔ ایچ آر ڈبلیو کی ایک اوررپورٹ کے مطابق ، کشمیر میں سکیورٹی اہلکاروں نے عصمت دری کو انسداد بغاوت کے حربے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ساؤتھ ایشین وائر کی رپورٹ میں ایک اسکالر انجر سکجلس بائیک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ کشمیر میں عصمت دری کا انداز یہ ہے کہ جب
فوجی سویلین رہائش گاہوں میں داخل ہوتے ہیں تو وہ عورتوں سے زیادتی سے قبل مردوں کو مار ڈال دیتے ہیں یا بے دخل کردیتے ہیں۔ ایک اور اسکالر شبھ متھور نے عصمت دری کو “کشمیر میں بھارتی فوجی حکمت عملی کا ایک لازمی عنصر” قرار دیا ہے۔ ایک استاد اور سکالرسیما قاضی کا کہنا ہے کہ کشمیر میں عصمت دری “جنگ کا ثقافتی ہتھیار” ہے۔ ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق وہ یہ بھی بتاتی ہیں۔
عصمت دری کا استعمال کشمیریوں کے خلاف مزاحمت کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے کیا جاتا ہے اور فوجیوں کے اعتراف کے ایسے دستاویزی ثبوت بھی سامنے آئے ہیں جن میںاعتراف کیا گیا ہے کہ انہیں کشمیری خواتین پرزیادتی کا حکم دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے بارے میں 52 ویں اقوام متحدہ کے کمیشن میں ، پروفیسر ولیم بیکر نے گواہی دی کہ کشمیر میں عصمت دری محض غیر طے شدہ فوجیوں پر مشتمل
الگ تھلگ واقعات کا معاملہ نہیں ، بلکہ سیکیورٹی فورسز کشمیری آبادی پر عصمت دری کو خوفناک اورسرگرم انداز میں ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہیںہیں۔ فوجیوں کے کچھ انٹرویو زکے دوران اس سوال پرکہ انہوں نے مقامی کشمیری خواتین سے زیادتی کیوں کی ، کچھ نے جواب دیا کہ کشمیری خواتین خوبصورت ہیں۔ دوسروں نے کہا کہ یہ غیر فیملی اسٹیشن ہے۔ ایک سپاہی نے جواب دیا کہ اس نے بدلے میں
ایک کشمیری خاتون کے ساتھ زیادتی کی ہے کیونکہ “ان کے مردوں نے اس کی برادری کی خواتین کے ساتھ بالکل ایسا ہی سلوک کیا”۔ ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق رپورٹ میں بتایا گیا کہ 8جولائی 2016کو کشمیری نوجوان برہان وانی کے قتل کے بعد سے سینکڑوں کشمیری نوجوان اور طلبہ اور طالبات بھارتی فورسز کی طرف سے گولیوں اورپیلٹ گنزکے استعمال سے زخمی ہو چکے ہیں ۔ ان زخمیوں میں سے انشاء مشتاق اورافراء شکور سمیت کم سے
کم 70بچے اور بچیاں بینائی کھو چکے ہیں جبکہ 18ماہ کی شیر خوار بچی حبہ نثار اور 32سالہ نصرت جان کی بینائی جزوی طورپر متاثر ہوئی ۔ آزادی پسند رہنمائوں آسیہ اندرابی ، فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین سمیت متعدد خواتین پر نظربند ہیں۔ ساؤتھ ایشین وائر کے مطابق رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کشمیریوں میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ جن کے عزیز اور رشتہ دار لاپتہ ہیں۔