دنیا میں مسئلے تھے‘ مسئلے ہیں اور مسئلے رہیں گے چناں چہ ایشو مسئلہ نہیں ایشو مسئلے کا حل ہے‘ آپ اگر مسئلے کو حل کرنا جانتے ہیں تو پھر آپ کے لیے کوئی مسئلہ‘ مسئلہ نہیں رہتا لیکن آپ میں اگر مسائل کے حل کی اہلیت نہیں تو پھر زندگی مسائلستان بن جاتی ہے‘
آپ پھر مسئلوں سے نکل نہیں سکتے‘ ہماری حکومت کا ایک ایشو بلکہ سب سے بڑا ایشو مسائل کو حل کرنے کی اہلیت کا فقدان ہے‘ حکومت مسئلہ حل کرتے کرتے اس کو مزید پھیلا دیتی ہے‘ مثلاً آپ الیکشن کمیشن کے ارکان کی تعیناتی کا ایشو لے لیں‘ وزیراعظم نے اپوزیشن لیڈر سے ملنا تھا اور یہ مسئلہ حل ہو جاتا‘ حکومت نے اسے حل کرنے کی بجائے بحران بنا دیا‘ قومی اسمبلی سے جلد بازی میں 9 آرڈیننس پاس کرا لیے گئے‘ اپوزیشن نے ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا اعلان کر دیا‘ بحران پیدا ہو گیا‘ مولانا نے دھرنا دیا‘ حکومت نے دھرنے کو اٹھاتے اٹھاتے یہ دھرنا پورے پاکستان میں پھیلا دیا اور اب میاں نواز شریف کو باہر بھجوانے کے ایشو نے ایک نیا تنازع‘ ایک نیا بحران پیدا کر دیا‘حکومت نے اگر اجازت دینی تھی تو یہ دے دیتی‘ دودھ میں مینگنیاں ڈال کر اسے ہلانے کی کیا ضرورت تھی؟ حکومت کو سنجیدگی سے سوچنا ہو گا یہ ایشو کو پھیلا کیوں دیتی ہے؟ نواز شریف نے بانڈ دینے سے انکار کر دیا‘ حکومت نے بانڈ کے بغیر باہر بھجوانے سے انکار کر دیا‘ اس انکار کا نقصان کس کو ہو گا؟ مولانا فضل الرحمن نے پورے ملک کی شاہراہیں بند کرنے کے اعلان کے ساتھ دھرنا ختم کر دیا، سڑکوں کی بندش کا نقصان کس کو ہو گا؟