اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) جے یو آئی (ایف) کے سربراہ فضل الرحمن کو آزادی مارچ کی اجازت معاملات طے ہونے پر دی گئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مولانا فضل الرحمان اسلام آ باد میں پہنچنے کے بعد 24 سے 48 گھنٹوں کے اندر اندر اپنی واپسی کا اعلان کر دیں گے اور ایک ڈیڈ لائن دے کر چلے جائیں گے۔
اجازت دینے کا فیصلہ بیک ڈور رابطوں کی وجہ سے ممکن ہوا اور ان بیک ڈور رابطوں میں بہت سے معاملات طے ہو چکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان فیس سیونگ کے لیے بھرپور طاقت کا مظاہرہ کریں گے اور اب تک جو ان کے مطالبات ہیں کہ حکومت مستعفی ہو، نئے انتخابات کروائے جائیں ،ان میں سے ایک بھی مطالبہ نہیں مانا جائے گا ۔مولانا فضل الرحمان سے اس دوران مذاکرات کرنے والی ٹیموں کے رابطے رہیں گے اور مذاکرات کو ہی بنیاد بنا کر مولانا فضل الرحمان واپسی کا اعلان کریں گے ۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ان کی تنظیم انصار الاسلام کے کارکن اپنے یونیفارم کی بجائے غیر مسلح دوسرے عام کپڑوں میں شرکت کریں گے۔ مارچ کے حوالے سے آ ئندہ چند روز میں تمام ٹی او آ رز بھی سامنے آ جائیں گے ۔ذرائع کے مطابق ٹی او آ رز کے مطابق مولانا فضل الرحمان اسلام آ باد جا کر عمل نہیں کرتے تو حکومت کی طرف سےدوسری حکمت عملی پر بھی کام مکمل ہو چکا ہے ، حکومت اور اہم ادارے اس کے لیے نہ صرف تیار ہوں گے بلکہ اس حوالے سے فورسز وہاں موجود بھی ہوں گی ۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمان کو آ زادی مارچ کی اچانک اجازت ملنے سے مسلم لیگ ن ، پیپلزپا رٹی ، اے این پی اور محمود اچکزئی سخت پریشان ہیں۔
انہوں نے اس چیز کا اظہار بھی اپنے اجلاسوں میں کرنا شروع کر دیا کہ مولانا فضل الرحمان کچھ طے کر کے جا رہے ہیں اور اگر مولانا فضل الرحمان کے ساتھ طے ہی کیا گیا ہے تو پھر ہم استعمال ہو رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن ، اے این پی اور محمود اچکزئی گروپ ہر صورت میں مولانا فضل الرحمان کے مطالبات پر عمل ہونے تک اسلام آ باد نہ چھوڑنے پر بضد ہے اور اس کے لیے وہ ہر سطح پر جانے کے لیے بھی تیار ہیں،اس ضمن میں پاکستان پیپلز پارٹی کچھ نرم رویہ رکھ رہی ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے اندر نوازشریف کے قریبی ساتھی مولانا فضل الرحمان سے جلد ملاقات کر کے خود انہیں واضح طور پر کہیں گے کہ اس وقت تک آ زادی مارچ اور دھرنا ختم نہ کیا جائے ، جب تک مطالبات پورے نہ ہوں۔واضح رہے کہ آزادی مارچ 27اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف گامزن ہوگا۔