کراچی (این این آئی)قومی احتساب بیورو نے میئر کراچی وسیم اختر کے لیے بھی شکنجہ تیار کرلیا، آئندہ ہفتے نیب میں طلب کیے جانے کا امکان ہے، خطرے کی گھنٹی بجنے کے بعد وسیم اختر نے خود کو بچانے کے لیے بھاگ دوڑ اور رابطے شروع کردیے۔ میئر کراچی وسیم اختر پر عائد سرکاری فنڈز میں 36 ارب روپے کی کرپشن کے الزام کی چھان بین بھی اہم مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔
نیب ذرائع کے مطابق ترقیاتی فنڈز، جعلی بھرتیوں اور غیر قانونی ٹھیکوں، گھوسٹ ملازمین اور کئی سال سے ناکارہ گاڑیوں کے نام پر حاصل کروڑوں روپے کے ڈیزل و پیٹرول کے معاملات کی بھی چھان بین کی جارہی ہے اس سلسلے میں محکمہ بلدیات سے پچھلے 4 سال کے بجٹ دستاویزات اور ملازمین سے متعلق تفصیلات بھی حاصل کر لی گئی ہیں جس کے بعد وسیم اختر کے گرد گھیرا مزید تنگ ہوگیا ہے۔ نیب ذرائع کے مطابق انہیں آئندہ ہفتے پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا جاسکتا ہے۔ نیب کے مطابق کے ایم سی کے 75 افسران کے خلاف بھی نیب تحقیقات اہم مرحلے میں داخل ہوچکی ہیں۔ ذرائع کے مطابق بااثر لیاقت قائم خانی میئر کراچی وسیم اختر کے علاوہ پی پی قیادت میں رابطہ کار بھی تھا اس نے کراچی کے 71 پارک صرف کاغذوں میں بنائے اور جعلی کمپنیوں سے خزانے کو ایک ارب روپے کا نقصان پہنچایا۔ سابق ڈی جی پارکس کے خلاف ماضی میں کرپشن کی 2 انکوائریاں دبا دی گئی تھیں۔ رواں سال اپریل 2019 میں نیب کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں جائزہ لینے کے بعد میئر کراچی کے خلاف تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ تین ماہ کے دوران نیب کے بار بار طلب کیے جانے کے باوجود نیب کو بلدیہ کراچی کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا جارہا تھا، تاہم دباؤ بڑھنے پر اب بالآخر محکمہ بلدیات نے جون 2016 سے 2019 تک کے تمام ترقیاتی بجٹ، اوزی ٹی اور اسپیشل گرانٹ کے طور پر دی جانے والی رقوم کا ریکارڈ نیب کے سپرد کر دیا ہے۔
ذرائع کے مطابق 2016 سے نالوں کی صفائی کے لیے دیے جانے والے 50 کروڑ روپے کے فنڈز کا بھی ریکارڈ یکجا کرکے نیب حکام کو ارسال کیا گیا ہے جبکہ اے ڈی پی اسکیموں کے لیے جاری فنڈز کی تفصیلات اور ریکارڈ بھی نیب حکام کو بھیجے جانے والے ریکارڈ میں شامل ہے۔ ذرائع کے مطابق محکمہ خزانہ نے بھی نیب حکام کے طلب کرنے پر براہ راست کی جانے والی تمام ادائیگیوں کی تفصیلات اور ریکارڈ نیب کے سپرد کر دیا جس میں سالانہ اور سہ ماہی کے حساب سے تفصیلات شامل ہیں جبکہ وفاقی حکومت کی طرف سے دیے جانے والے تمام فنڈز کی بھی تفصیلات حاصل کرلی گئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق محکمہ بلدیات کے ایڈمن سیکشن نے چیف سیکرٹری اور سیکرٹری سروسز کی ہدایات پر منی لانڈرنگ اور جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات کے حوالے سے نیب حکام کو بلدیہ عظمی کراچی اور تمام ضلعی بلدیاتی اداروں کی طرف سے مخصوص فرمز کو دیے جانے والے ٹھیکوں کی تفصیلات بھی محکمہ بلدیات کی طرف سے تمام ریکارڈ یکجا کرکے فراہم کردیا گیا ہے۔ نیب کو فراہم کیے جانے والے شواہد میں بتایا گیا ہے کہ یونین کونسل کے ہر حلقے کی ترقی کے لیے ہر کونسلر کو فنڈز جاری کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا تاہم کچھ من پسند کونسلرز کو صرف ریکارڈ میں بھاری رقوم فراہم کی گئیں جس کا بھی سراغ لگا لیا گیا ہے۔