اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر اپنے آج کے کالم ’’بھارت کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو پچھلے چھ ماہ کے دوران غلط انٹیلی جنس رپورٹوں کے باعث دوسری مرتبہ ایک بڑی ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا ہے۔
پہلی مرتبہ فروری 2019میں مودی نے آزاد کشمیر سے ملحقہ خیبر پختونخوا کے علاقے بالا کوٹ میں بمباری کی اور ایک ٹریننگ کیمپ تباہ کرنے کا دعویٰ کیا لیکن یہ دعویٰ جھوٹ نکلا۔ دوسری مرتبہ بھارتی انٹیلی جنس نے اگست کے پہلے ہفتے میں وزیراعظم مودی کو یہ رپورٹ دی کہ قطر میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پا چکا ہے اور اس معاہدے کا اعلان ہوتے ہی دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر کی طرف مبذول ہو جائے گی۔ مودی کو یہ بھی کہا گیا کہ 1989میں افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا کے بعد کشمیر میں آزادی کی تحریک تیز ہو گئی تھی اور خطرہ ہے کہ 2019میں افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کے بعد ایک دفعہ پھر کشمیر کا معاملہ دنیا کی توجہ حاصل کرے گا۔ اس انٹیلی جنس رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت کو کشمیر پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ امریکہ اور افغان طالبان میں امن معاہدے کے متوقع اثرات کا مقابلہ کیا جا سکے، لہٰذا مودی نے فوری طور پر مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں مارشل لاء نافذ کر دیا اور آئین کی دفعہ 370اور 35اے کے تحت ریاست کی خصوصی حیثیت بھی ختم کر دی۔ فروری میں بالاکوٹ حملے سے بھی دنیا میں مسئلہ کشمیر اُجاگر ہوا اور اگست میں مقبوضہ علاقے میں مارشل لاء لگانے کا نتیجہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کی صورت میں نکلا۔
پچاس سال بعد سلامتی کونسل کے اجلاس میں کشمیر پر دوبارہ بات ہوئی۔ کمرہ بند اجلاس کے بعد کوئی اعلامیہ جاری نہ ہوا جسے بھارت نے اپنی کامیابی قرار دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس اجلاس نے ایک دفعہ پھر دنیا کو مسئلہ کشمیر کی سنگینی سے آگاہ کیا اور بھارت مسئلہ کشمیر کو اپنا اندرونی معاملہ ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ اب بھارتی میڈیا میں بھی یہ اطلاعات شائع ہو رہی ہیں کہ مودی حکومت نے 5؍اگست کو بہت جلد بازی میں ریاست جموں و کشمیر پر جو مارشل لاء مسلط کیا ۔
اُس کے پیچھے انٹیلی جنس رپورٹ تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کچھ دنوں میں امریکہ اور افغان طالبان میں امن معاہدہ خطے میں بھارت کے مفادات کو بُری طرح متاثر کرے گا لہٰذا بھارت کو کچھ فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔14؍اگست 2019کو بھارتی اخبار ’’دی ہند‘‘ میں سوہاسنی حیدر نے لکھا ہے کہ 5؍اگست کو مودی کے کشمیر ایڈونچر کے پیچھے بھارتی انٹیلی جنس کی یہ رپورٹ تھی کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان متوقع معاہدہ بھارت کے لئے بہت نقصان دہ ثابت ہو گا ۔
کیونکہ ایسی صورت میں 28ستمبر 2019کو افغانستان میں صدارتی الیکشن ملتوی ہو جائے گا۔ بھارتی حکومت اس الیکشن میں بیک وقت اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سمیت کم از کم 17ایسے امیدواروں کی مدد کر رہی ہے جو بھارت کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہیں۔ صدارتی الیکشن ملتوی ہونے سے کابل میں افغان طالبان کا اثر و رسوخ قائم ہو جائے گا جو پاکستان کے زیادہ قریب ہیں۔
جس وقت مودی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مارشل لاء نافذ کرنے کا فیصلہ کیا تو قطر میں امریکہ اور طالبان کے مابین مذاکرات کا آٹھواں رائونڈ جاری تھا۔ مذاکرات کا یہ رائونڈ 12؍اگست کی شام بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا کیونکہ عیدالاضحی آ گئی تھی۔ ان مذاکرات میں شریک امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد نے بہت کوشش کی کہ عیدالاضحی کے دن مذاکرات کو نتیجہ خیز بنا کر کوئی خوشخبری دی جائے لیکن افغان طالبان نے کچھ اہم معاملات پر اپنی قیادت سے مشورے کے بغیر آمادگی سے معذوری ظاہر کی اور یوں بھارتی انٹیلی جنس کی یہ رپورٹ غلط نکلی کہ 3اگست کو قطر میں شروع ہونے والے مذاکرات کا آٹھواں رائونڈ نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔