اسلام آباد (این این آئی)وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل کے اجلاس سے ثابت ہوگیا مقبوضہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں، عالمی میڈیا نے بھارت کا چہرہ بے نقاب کیا،ہندوستان نے خود دو طرفہ بات چیت کے راستے بند کئے آج پانچ دہائیوں کے بعد بھارت کے نقطہ نظر کو شکست ہوئی،ہندوستان کے وزیر دفاع کا یہ بیان انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے، پاکستان نے جنوبی ایشیا میں نیوکلیئر کے حوالے سے تحمل کی پالیسی اپنائے رکھی ہے اور رکھتا رہے گا،
او آئی سی نے واضح پیغام دیا ہے کہ وہ کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں، پاکستان کا فیصلہ ہے کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے، پاکستان انشاء اللہ کشمیریوں کے ساتھ سفارتی اخلاقی اور سیاسی معاونت جاری رکھے گا،پوری قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں وہ مسئلہ جسے بھارت نے مختلف حیلوں بہانوں سے دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھا بے نقاب ہو گیا۔جمعہ کو وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے وزارت خارجہ میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے سیکورٹی کونسل کے اجلاس کے حوالے سے میڈیا سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ جیسا کہ آپ کے علم میں تھا کہ پاکستان کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا،13 اگست کو میرا خط صدر سیکورٹی کونسل اور تمام ممبران کو بھجوایا گیا،خط دیکھ کر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں حالات اتنے پیچیدہ ہیں کہ ان پر اجلاس میں گفتگو ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ بھارت نے سیکورٹی کونسل کا اجلاس رکوانے کی بھرپور کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ میں آج پوری قوم کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ وہ مسئلہ کہ جسے بھارت نے مختلف حیلوں بہانوں سے دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھا آج بے نقاب ہو گیا۔انہوں نے کہا کہ 1965 کے بعد پہلی مرتبہ سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر زیر بحث آیا،میں سلامتی کونسل کے ممبران کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں ہندوستان کی مخالفت کے باوجود اجلاس طلب کیا۔انہوں نے کہا کہ ڈیپارٹمنٹ آف پولیٹیکل مندوب اور اور یو این موور کو مدعو کیا گیا تھا کہ وہ حقائق پر مبنی رپورٹ پیش کریں چنانچہ اس رپورٹ پر مفصل بحث ہوئی۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بارھویں دن سے کرفیو ہے،مواصلات کے ذرائع بند ہیں،الحمدللہ آج ہندوستان کی کوششوں کو مسترد کر دیا گیا اور اجلاس منعقد ہو گیا۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان دو نکات پر دنیا کے دارلخلافوں میں پیش کر رہا تھاکہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ نہیں ہے،آج دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ ان کا اندرونی معاملہ نہیں ہے،اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے بیان میں کہا گیا کہ یہ متنازع مسئلہ ہے جسے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان نے خود دو طرفہ بات چیت کے راستے بند کئے آج پانچ دہائیوں کے بعد بھارت کے نقطہ نظر کو شکست ہوئی۔انہوں نے کہا کہ دنیا سمجھتی ہے کہ کرفیو ختم ہونے کے بعد زمینی حقائق سامنے آئیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہفتہ کو گیارہ بجے وزارتِ خارجہ میں اہم اجلاس طلب کیا ہے اس میں ہم اس پر مزید غور و خوض کریں گے۔انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ جیسے جیسے صورتحال سامنے آتی جائے گی ہم اپنا لائحہ عمل طے کرتے جائیں گے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کا فیصلہ ہے کہ ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ میری آواز اگر مقبوضہ جموں و کشمیر پہنچتی ہے تو انہیں پتہ چل گیا ہو گا کہ 14 اگست کو پاکستان کے گلی کوچوں میں کشمیری بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا اور 15 اگست کو پوری دنیا میں یوم سیاہ منایا گیا۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی میڈیا قابل تحسین ہے اور میں بین الاقوامی میڈیا کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ بھارت نے جو حقائق چھپانے کی کوشش کی میڈیا نے انہیں بے نقاب کیا،نیویارک ٹائمز، بی بی سی سی این این اور سب کا جنہوں نے کردار ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں اقوام
متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر کی رپورٹ کو،ہیومن رائٹس واچ اور وہ ساری انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا جنہوں نے حقائق کو باہر نکالا۔انہوں نے کہا کہ میں ہندوستان کو چیلنج کرتا ہوں کہ کشمیریوں کو آزاد کیجیے اور پھر ان کو جمع ہونے دیں گے بے شک پانچ اگست کے اقدام پر رائے لے لیں،بین الاقوامی مبصرین کو وہاں تک رسائی دیں تو سچ سامنے آ جائے گا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان انشاء اللہ کشمیریوں کے ساتھ سفارتی اخلاقی اور سیاسی معاونت جاری رکھے گا جب تک وہ حق خودارادیت کا حق نہیں پا لیتے۔انہوں نے کہا کہ آج تین پیغام سامنے آئے،
ایک تو یہ کہ کشمیری تنہا نہیں 14/15 اگست نے ثابت کردیا،دوسرا یہ ثابت ہوا کہ یہ متنازع معاملہ ہے اور اس کا پرامن حل نکلنا چاہیے،میں بین الاقوامی کمیونٹی کا اور سیکورٹی کونسل کا پھر شکرگزار ہوں کہ انہوں نے بہتر گھنٹوں میں ہماری درخواست پر اجلاس طلب کیا۔وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ بھارت کے وزیر دفاع کا غیر زمہ دارانہ بیان دیا جس پر وزارتِ خارجہ نے مشاورت کی،ہمارا ان کو ہما را جواب یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان کے وزیر دفاع کا یہ بیان انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جنوبی ایشیا میں نیوکلیئر کے حوالے سے تحمل کی پالیسی اپنائے رکھی ہے اور رکھتا رہے گا۔انہوں نے کہا کہ جب تک سیکورٹی کونسل کا اجلاس نہیں ہوا ہمیں خدشات رہے کیونکہ یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے، اس قدم کو سامنے رکھتے ہوئے ہفتہ کو انشاء اللہ ہم مزید بیٹھ کر مشاورت کریں گے اور اگلے لائحہ عمل سے آگاہ کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عام پاکستانی ہم سے زیادہ سمجھدار ہے وہ پیغام دے چکا ہے کہ وہ کشمیریوں کے ساتھ ہے،آج او آئی سی نے کہہ دیا ہے کہ بھارت سے کرفیو فی الفور اٹھایا جائے۔انہوں نے کہا کہ او آئی سی نے واضح پیغام دیا ہے کہ وہ کشمیری بھائیوں کے ساتھ ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر وزیراعظم عمران خان نے دنیا کے مختلف سربراہان سے رابطے کئے۔انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کا صدر ٹرمپ سے ٹیلیفونک رابطہ ہوا،انہوں نے صدر ٹرمپ کو آگاہ کیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے یکطرفہ اقدام سے خطرات لاحق ہیں،وزیر اعظم عمران خان نے صدر ٹرمپ کے ساتھ افغان امن عمل پر تبادلہ خیال کیا کہ کیسے افغانستان کا امن پاکستان کے لئے اور خطے کے استحکام کیلئے ضروری ہے۔ایک اورسوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ جب تک ہندوستان کا وزیر خارجہ کشمیر سے کرفیو نہیں ہٹاتا جارحیت کو ختم نہیں کرتا میں بطور وزیر خارجہ ان سے کوئی رابطہ نہیں کرونگا۔انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کی سوچ والوں سے رابطہ بے سود ہو گا۔انہوں نے کہاکہ آج اقوام متحدہ کی قراردادوں میں زندگی آ گئی ہے۔