حکومت نے آج اسحاق ڈار کا لاہور کا گھر نیلام کرنے کا اعلان کر دیا‘ یہ گھر حکومت نے 27 جولائی کو قبضے میں لیا تھا‘ اسحاق ڈار پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام ہے‘ان کے مختلف بینک اکاؤنٹس سے پچاس کروڑ روپے بھی بحق سرکار ضبط کر لیے گئے‘ میں اس ایشو پر حکومت کی رٹ کو چیلنج نہیں کرتا یقینا اسحاق ڈار صاحب نے کوئی نہ کوئی جرم کیا ہو گا جس کے رد عمل میں حکومت نے اتنا بڑا فیصلہ کیا تاہم میری ایک چھوٹی سی گزارش ہے اگر اسحاق ڈارمفرور ہیں اور
ان کو ملک سے باہر ہونے کی سزا دی جا رہی ہے تو پھر جنرل پرویز مشرف بھی مفرور ہیں اور ان کی پراپرٹیز بھی پاکستان میں موجود ہیں‘ یہ چک شہزاد میں چالیس کنال کے فارم ہاؤس اور کراچی میں گھر‘خیابان فیصل فیز آٹھ میں پلاٹ‘ ڈی ایچ اے کراچی اور ڈی ایچ اے اسلام آباد میں پلاٹس کے مالک ہیں‘ ان کے بینک اکاؤنٹس میں بھی تین کروڑ تینتالیس لاکھ روپے بھی پڑے ہیں اور یہ بھی اسحاق ڈار کے اکاؤنٹس کی طرح ضبط کر لیے گئے تھے لیکن جنرل صاحب نے ضبطگی کے باوجود اپنے سلیڈ اکاؤنٹس سے پیسے نکال لیے‘ عدالت نے اس حرکت پر جنوری 2019ء میں شدید غصے کا اظہار کیا تھا مگر اس کے باوجود حکومت نے کسی ادارے کے کسی فرد کو اس کوتاہی کا ذمہ دار قرار نہیں دیا‘ ہم اگرمفرور ہونے کا تقابل کریں تو عدالتوں نے ستمبر 2016ء کو جنرل پرویز مشرف کومفرور قرار دیا تھا جبکہ اسحاق ڈاردسمبر 2017ء کومفرور ڈکلیئر کیے گئے یوں جنرل مشرف ڈار صاحب سے سوا سال پرانے مفرور ہیں مگر حکومت نے آج تک ان کے اثاثے نیلام نہیں کیے‘ ہم ملک میں اگر قانون اور آئین کی پاس داری چاہتے ہیں تو پھر انصاف کے دونوں پلڑے برابر ہونے چاہئیں‘ جنرل مشرف اور اسحاق ڈار دونوں کے ساتھ برابر سلوک ہونا چاہیے اور حکومت اگر یہ نہیں کرتی تو پھر اسحاق ڈار خواہ کتنے ہی بڑے مجرم کیوں نہ ہو جائیں یہ انصاف جانب دار اور سلیکٹو دکھائی دے گا‘ یاد رکھیں انصاف اس وقت تک انصاف نہیں ہوتا جب تک یہ غیر جانب دار اور برابر نہیں ہو جاتا اور حکومت کے اقدامات سردست برابر اور غیر جانب دار دکھائی نہیں دے رہے‘ چیئرمین سینٹ کے مقدر کا فیصلہ کل ہو جائے گا‘ چیئرمین اگر آج مستعفی نہیں ہوتے تو کل سینٹ میں ایک نئی تاریخ رقم ہو گی اوروہ تاریخ کیا ہو گی اور کیا یہ تبدیلی صرف چیئرمین سینٹ تک محدود رہے گی یا پھر اگلا نشانہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ ہوں گے؟