ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

اسٹیبلشمنٹ بھی وزیراعظم سے خوش ہو گئی ، عمران خان کا جرات مندانہ فیصلہ وہ کام کر دکھایا جسے ملکی تاریخ میں آج تک سابقہ تمام حکومتیں کرنے سے ہچکچاتی رہیں

datetime 28  جون‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

معروف کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے کالم’’بند کمرے سے کیسے نکلوں؟‘‘ میں لکھتے ہیں کہ۔۔۔ ہر شخص اور ہر گھر کے اپنے اپنے مسائل ہوتے ہیں جنہیں دوسروں کو سمجھانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی حال میرا بھی ہے میں اندھیرے کمرے میں بند ہوں، میرے احساسات وہی ہیں جو ایک قیدی کے ہوتے ہیں۔ میرا صیاد کوئی اور نہیں میری اپنی شریکِ حیات ہے جس نے مجھے لاک کر رکھا ہے

اور باہر نکلنے کی شرط یہ رکھی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کی 3مثبت باتوں کو مختلف انداز سے سوچو اور پھر لکھو۔ ساتھ ہی ہدایت یہ بھی ہے کہ کوئی ڈنڈی نہ مارنا نہیں تو ڈنڈا پڑے گا۔ مجبوری میں یہ سب تحریر کرنا پڑ گیا ہے۔ تاریکی، درد اور بھوک ایک حد تک قابلِ برداشت ہوتی ہیں، یہ حد سے بڑھ جائیں تو شدتِ تکلیف میں انسان کچھ بھی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ سکینڈے نیویا میں سورج چند گھنٹے کیلئے نکلتا ہے، روشنی کم کم ہے، وہاں کے لوگ زندگی سے سب سے زیادہ بیزار ہیں، زندگی کی ہر آسائش موجود ہے مگر روشنی کمیاب ہے۔ یہ وجہ ہے یا کچھ اور مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں سب زیادہ خود کشیاں کم روشنی والے ممالک میں ہوتی ہیں۔ درد کیا ہے، کیسے ہوتا ہے اس پر ابھی تک موت کے اسباب کی طرح تحقیق جاری ہے، موت آتی ہے تو زندگی سے جان چھوٹ جاتی ہے مگر درد ہوتاہے تو تکلیف بڑھتی ہے۔ کچھ ایسا ہی حال بھوک کا بھی ہے۔ سورۃ قریش میں بھوک اور خوف کو بہت بڑی تکالیف کے طور پر بیان کیا ہے۔ اسی طرح سورۃ الناس میں تاریکی اور اندھیرے کی برائیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔میں تاریکی میں ہوں، تکلیف اور درد کا شکار ہوں، مستقبل کا کوئی سرا ہاتھ میں نہیں ، دور دور تک روشنی نظر نہیں آ رہی۔ درد اس لئے ہے کہ زندگی بھر جس سمت میں چلے اس سمت کا راستہ ہی بند نظر آ رہا ہے۔ مہنگائی، بھوک کی طرف لے جا رہی ہے

گویا مریض دل کو تاریک کمرے میں بند ہونا پڑ گیا ہے۔ ہے تو مایوسی مگر امیدِ سحر میں کچھ چراغ جلا کر دیکھتے ہیں۔تاریک کمرے میں قید مجھے نوبیل انعام یافتہ ہیرالڈ پنٹر (1930-2008)کا پہلا ڈرامہ “The Room” یاد آیا۔ ڈرامے کا مرکزی اور بڑبولا کردار مسز روز (روز کا نام بھی بامعنی ہے) ایک بڑے کمرے میں بیٹھی ہے، اس کمرے میں جو بھی آتا ہے تکلیف، غم اور درد لاتا ہے۔

تنہائی، دکھ، درد اور خاموشی سے بھرپور یہ ڈرامہ فرد کے ازلی اور دنیاوی دونوں طرح کے دکھوں کی علامت ہے۔ خیر ادب سے سیاست کی طرف آتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو نوجوانوں اور ایسے لوگوں کی بے پایاں حمایت حاصل ہے جو عام طور پر سیاست سے لاتعلق رہتے ہیں، اس حکومت کے حامیوں کا بیانیہ منفرد، مختلف اور زوردار ہے۔

کرپشن کے حوالے سے تحریکِ انصاف کا موقف اس قدر جاندار ہے کہ ابھی تک پیپلز پارٹی اور (ن)لیگ اس کا جوابی بیانیہ تک نہیں بنا سکیں۔ اپنے اس بیانیے پر تحریک انصاف ابھی تک قائم ہے اور اسی کے ذریعے سے اس نے آصف زرداری اور نواز شریف کو اپنے حلقہ اثر میں طاقت رکھنے کے باوجود جیلوں میں بند کر رکھا ہے۔تحریک انصاف کو اوورسیز پاکستانیوں کی اکثریت کی پرجوش حمایت حاصل رہی ہے،

ہمارے یہ بچھڑے ہوئے بھائی ہمارا اثاثہ ہیں، پاکستان کی تقدیر اگر کوئی بدل سکتا ہے تو یہی لوگ ہیں، یہ اپنی اپنی جگہ پر بیرون ملک مختلف شعبوں میں کامیاب و کامران ہیں، اگر پاکستان ان کے تجربے اور خیالات سے استفادہ کرلے تو جس طرح شمالی کوریا اور چین کے اوورسیز کارکنوں نے اپنے ممالک کو بدلا یہ بھی پاکستان کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ قائداعظم اور علامہ اقبال بھی بیرون ملک سے

تجربہ و تعلیم حاصل کرکے ہی پاکستان بنا سکے تھے۔ عمران خان اس اثاثے کو استعمال کرنا چاہتے ہیں یاد رہے کہ اگر یہ اثاثہ آج استعمال نہ ہوا تو وقت کے ساتھ ساتھ ضائع ہوتا جائے گا۔تحریک انصاف کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ پچاس سال کے وقفے کے بعد یہ پہلی حکومت ہے جسے اسٹیبلشمنٹ اس کی پالیسیوں اور سمت کی وجہ سے پسند کر رہی ہے۔ سول ملٹری تضاد کے پچاس سال لڑائیوں میں گزر گئے

اور ملک کا قیمتی وقت ضائع ہو گیا، اِس تاریک کمرے میں مجھے بہت سے اور پہلو بھی یاد آرہے ہیں۔ وزیراعظم کی شہرت اچھی ہے، ٹیکس اور ریونیوز کے حوالے سے عرصہ دراز سے جن اقدامات کی ضرورت تھی ، عمران خان ہی وہ واحد شخص ہیں جوجراتمندانہ طریقے سے اپنے موقف پر ڈٹے رہ سکتے ہیں ورنہ گزشتہ 15سال سے ہر حکومت ٹیکسوں کا نظام لانے سے ہچکچا رہی تھی، ہر بار مافیاز کے

سامنے جھک کر نئے ٹیکس نظام کو ٹال دیا جاتا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس طرح ملک نہیں چل سکتا کہ صرف ایک فیصد لوگ ٹیکس دیں اور 99فیصد صرف باتیں کریں۔ عمران خان سے توقع یہی ہے کہ وہ پہلی بار تاجروں اور بزنس مڈل کلاس کو ٹیکس نیٹ میں لے آئیں گے۔میں خوبیوں پر خوبیاں بیان کر رہا تھا کہ چابی لے کر باہر بیٹھی میری شریک حیات میری دلیلوں سے کچھ متاثر ہوئی اور اس نے کہا کہ

ہاں اب میں تالا کھول دیتی ہوں۔ یوں بالآخر مجھے روشنی، آزادی اور خوشی ملی۔ اس وقتی قید سے البتہ مجھے یہ سبق ضرور ملا کہ صرف ایک طرف کے حقائق دیکھنا آنکھوں پر پٹی باندھنے یا اندھیرے کمرے میں قید ہونے کے مترادف ہے۔ اگر روشنی میں رہنا ہے، آزادی اور غیر جانبداری کو برقرار رکھنا ہے تو دونوں طرف کے حقائق اور خامیاں سامنے رکھنا چاہئیں۔ یہ سوچنا کہ سچ صرف ایک ہی فریق کے پاس ہے صریحاً غلط ہے، تھوڑا تھوڑا سچ ہر فریق کے پاس ہوتا ہے اس لئے ہر فریق کی بات سننا اور سمجھنا ہی ملک کو آگے بڑھاتا ہے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…