کراچی(این این آئی) گورنر اسٹیٹ بینک باقر رضانے کہاہے کہ ملک میں معاشی استحکام آچکا ہے اور غیر یقینی صورت حال ختم کرکے لوگوں کا اعتماد بحال کرنا ہے، ملک کا معاشی مستقبل روشن ہے، مرکزی بینک کے براہ راست حکومت کو قرضہ دینے سے افراط زر بڑھتا ہے، لیکن اب اس بجٹ میں حکومت اسٹیٹ بینک سے کوئی قرضہ نہیں لے گی، ملک کے بیرونی خسارے میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے، پاکستان کی معاشی ٹیم معاشی پلان پر عمل درآمد کررہی ہے،
ملکی معیشت کو مضبوط بنانا ہے، ملک کو کس طرح آگے لے جانا ہے یہ بات زیادہ اہم ہے، آئی ایم ایف کی بورڈ میٹنگ 3 جولائی کو ہو رہی ہے اور میں آئی ایم ایف سے مستعفی ہو چکا ہوں اب میرا اس ادارے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔پیرکواپنی پہلی پریس کانفرنس میں گورنر اسٹیٹ بینک باقررضا نے کہاکہ پاکستان میں معاشی عدم استحکام کی دو اہم اور بنیادی وجوہات تجارتی خسارہ اور مالیاتی خسارہ ہیں، ماضی میں مرکزی بینک پر قرضوں کے انحصار سے افراط زر اور روپے کی قدر پر اثر پڑا، روپے کی قدر ایک جگہ رہنے سے جاری کھاتے کا خسارہ بڑھتا رہا اور زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوئے، روپے کی قدرکو آزاد چھوڑنا معیشت کے لیے بالکل مناسب نہیں، جب کہ مرکزی بینک کے براہ راست حکومت کو قرضہ دینے سے افراط زر بڑھتا ہے، اب یہ یہ دونوں مسائل کنٹرول ہورہے ہیں، حکومت اسٹیٹ بینک سے قرض نہیں لے گی، اس سے مارکیٹ میں بہتری آئے گی، اور جب سے روپے کی قدر میں کمی آئی بیرونی خسارہ بھی کم ہوا، روپے کی قدر کو ایک جگہ رکھتا درست پالیسی نہیں تھی۔باقررضانے کہاکہ بیرونی اورمالیاتی خساریمیں بہت حد تک کمی آنا شروع ہوگئی ہے، کافی حد تک معاشی استحکام آچکا ہے، ہم اپنے معاشی مستقبل کے لیے پرامید ہیں، معیشت کا مستقبل بہت روشن ہے، ہمارا سب سے بڑا مخالف بے یقینی ہے، ہمیں عوام کو اعتماد دینا ہوگا۔انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف پروگرام میں آنے سے غیر ملکی اداروں کا معیشت پر اعتماد بڑھتا ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ پیشرفت میں ملکی مفاد کو مقدم رکھا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ برآمدات بڑھانے کے کئی عوامل ہیں اور
مارکیٹ کی بنیاد پر شرح تبادلہ مقامی صنعت کو تحفظ دیتا ہے جبکہ شرح تبادلہ پراضافی دبا ہو تو اسٹیٹ بینک مداخلت کرتا ہے۔رضا باقر نے معیشت کو بیرونی ادائیگیوں اور مالی خسارے جیسے چیلنجز کا سامنا ہے جبکہ روپے کی قدر میں کمی سے بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ کم ہوا ہے تاہم بیرونی اور مالیاتی خسارے میں بہت حد تک کمی آنا شروع ہو گئی ہے۔گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ہم نے غیر یقینی صورتحال پر قابو پانا اور لوگوں کا اعتماد بڑھانا ہے تاہم ہماری معاشی ٹیم ملک میں
معاشی استحکام لا رہی ہے۔ ماضی میں زرمبادلہ کی شرح کے نظام میں حکومت کی مداخلت رہی اور ماضی کی حکومتیں اسٹیٹ بینک سے قرضہ بھی لیتی رہیں لیکن رواں مالی سال حکومت اسٹیٹ بینک سے قرضہ نہیں لے گی۔انہوں نے کہا کہ ہمارا شرح مبادلہ کافی عرصے تک منجمد رہا جو درست پالیسی نہیں تھی اور ترسیلات زر بڑھنے سے اس میں کمی آتی ہے تاہم اب شرح مبادلہ کو مارکیٹ سے منسلک کرنے سے برآمدات میں اضافہ ہو گا۔گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ایکسچینج ریٹ پر
پالیسی اصلاحاتی عمل کا حصہ ہے، حکومت اسٹیٹ بینک سے قرضہ لے تو مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے اور ایکسچینج ریٹ پر دبا ؤآتا ہے۔انہوں نے کہا کہ آئندہ بجٹ میں حکومت اسٹیٹ بینک سے قرض لینا نہیں چاہتی، حکومت کے قرض کم ہوئے تو مہنگائی کی شرح بڑھنا بند ہوجائے گی۔ڈاکٹر رضا باقر کے مطابق عید کے بعد روپے کی قدر میں کمی دیکھی جارہی ہے، جون میں کمپنیوں کے کھاتے مکمل ہوتے ہیں، ڈالڑ کی طلب بڑھتی ہے۔رضا باقر نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام سے مالی خسارہ کم کرنے میں مدد ملتی ہے، بین الاقوامی مالیاتی ادارے قرضے دینے پر راضی ہوتے ہیں، آئی ایم ایف پروگرام سے دنیا کو مثبت پیغام جاتا ہے۔گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ آئی ایم ایف سے استعفیٰ دے دیا اب میرا کوئی تعلق نہیں ہے، امید ہے 3 جولائی کو آئی ایم ایف بورڈ قرضے کی منظوری دے دے گا۔