اسلام آباد (نیوزڈ یسک) امریکی وفاقی ادارہ برائے صحت نے حکم دیا ہے کہ ایڈز کے مرض کی شناخت ہوتے ہی علاج شروع کردینا چاہئے۔ ادارے نے ایڈز کے ابتدائی سطح پر علاج کے زندگی بچانے پر اثرات کے موضوع پر جاری تحقیق کو بھی قبل از وقت ختم کرنے کا اعلان کیا ہے کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیق کے تاحال نتائج سے یہ امر ثابت ہوچکا ہے کہ اس مرض کا علاج تشخیص کے فوری بعد شروع کردینا چاہئے اس لئے اس تحقیق کو مزید جاری رکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے۔ اس تحقیق کو تقریباً مقررہ وقت سے ایک سال قبل ہی ختم کیا گیا ہے کیونکہ ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ ایڈز کی تشخیص ہوتے ہی علاج شروع کروادینے والے لوگوں میں موت کا شکار ہونے کا خطرہ 53فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔ واضح رہے کہ عام طور پر ایڈز کے مریضوں میں یہ رجحان دیکھنے کو ملا ہے کہ وہ مرض بگڑنے کے بعد ہی معالج کے پاس جاتے ہیں کیونکہ ایڈز کو لاعلاج تصور کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں 35ملین ایڈز کے مریضوں میں سے صرف 14ملین ہی علاج کرواتے ہیں۔ امریکہ میں کل بارہ لاکھ مریضوں میں سے صرف ساڑھے چار لاکھ مریض اپنا علاج کرواتے ہیں۔ ایڈز کے مریضوں میں علاج نہ کروانے کی اہم وجہ مایوسی ہے اور اس کے علاوہ بہت سے لوگ ایڈز کے مہنگے علاج پر آنے والے اخراجات اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے ہیں جس کی وجہ سے وہ علاج نہیں کرواتے ہیں۔ دوسری جانب کچھ افراد کایہ بھی خیال ہے کہ چونکہ یہ ایک لاعلاج مرض ہے، اسلئے اس پر اخراجات کرنا حماقت ہے تاہم تحقیقاتی ٹیم میں شامل اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ایڈز کنٹرول کے ڈائریکٹر مائیکل سڈبی کہتے ہیں کہ اس تحقیق کے بعد یہ بحث سمٹ جانی چاہئے کہ علاج پر خرچہ کرنا چاہئے یا نہیں۔علاوہ ازیں بہت سے لوگ اس وجہ سے علاج سے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ ہیلتھ انشورنس کے مالک نہیں ہوتے ہیں اور اپنی جیب سے ایڈز کے علاج پر آنے والے اخراجات اٹھانا بہت مشکل ہوتاہے۔ واضح رہے کہ اس سلسلے میں مختلف ماہرین پہلے بھی دعویٰ کرچکے ہیں کہ ایڈز کے مریضوں کا بروقت علاج شروع کیا جائے تو ان کی جان بچائی جاسکتی ہے تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ جب اتنی بڑی سطح پر ان مریضوں میں تجرباتی بنیاد پر ادویات وغیرہ کا استعمال بھی کیا گیا ہے۔