اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی عرب نے تین ارب ڈالرز کا تیل پاکستان کو ادھار دینے کا وعدہ کرنے کے بعد اب تک ایک لیٹر بھی کیوں نہیں دیا؟ اس حوالے سے موقر قومی اخبار نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ اس وعدے پر عمل درآمد میں تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب اپنی شرائط پر اس حوالے سے معاہدہ کرنا چاہتا ہے، دونوں ممالک کے درمیان ولی عہد شہزادہ بن سلمان کے 17 فروری کے دورہ کے موقع پر پٹرولیم مصنوعات، خام تیل اور ایل این جی کی درآمد کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے،
موقر روزنامے کی رپورٹ کے مطابق پٹرولیم ڈویژن نے ہنگامی طور پر ایک سمری اکنامک کوارڈی نیشن کمیٹی کو بھیجی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ معاہدے کی شرائط کو نرم کیا جائے تاکہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر پر جو دباؤ ہے اسے کم کیا جا سکے۔ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدے کی شرائط کے مطابق پاکستانی حکومت کو سعودی عرب سے سالانہ 3.2 ارب ڈالر کا خام تیل، ایل این جی اور پٹرولیم مصنوعات درآمدکرنی ہیں، ان کی ماہانہ مالیت 27کروڑ ڈالر بنتی ہے۔ ایک سال کے لیے یہ معاہدہ کیا گیا لیکن یہ بھی کہا گیا کہ سال کے ختم ہونے پر اگر دونوں ممالک متفق ہوئے تو اس میں دو سال کی مزید توسیع کر دی جائے گی اور اس کے لیے سعودی عرب کو پاکستانی حکومت غیرمشروط اور ناقابل تنسیخ خودمختار مالی ضمانت دے گی رپورٹ کے مطابق پاکستان اس معاہدے پر آگے بڑھنے کے قابل نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب پاکستانی آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی اور دیگر ایجنسیوں کو تاخیری ادائیگی پر تیل کی درآمد میں شامل کرنے کو تیار نہیں۔ اس معاہدے کے مطابق پاک عرب ریفائنری کمپنی اور نیشنل ریفائنری لمیٹڈ سعودیہ کی آئل کمپنی آرامکو سے تیل حاصل کریں گی، اسی طرح پاکستان سٹیٹ آئل اور پاکستان ایل این جی لمیٹڈ بھی بالترتیب سعودی کمپنی سے پٹرولیم مصنوعات اور ایل این جی لیں گی۔ پٹرولیم مصنوعات کی ٹیسٹنگ میں سعودی عرب اوگرا اور ہائیڈروکاربن ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ کا کردار بھی نہیں چاہتا، رپورٹ کے مطابق پاکستان اگر سعودی عرب کی یہ شرائط مان لیتا ہے تو اسے اوگراکے موجودہ سیمپلنگ کے نظام میں بھی نرمی کرنا پڑے گی۔