اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)قومی احتساب بیورو ، وفاقی کابینہ کے ایک ایسے وزیر پر ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہے جس کے اثاثے اور کاروبار سیاست میں آنے سے پہلے مختصر تھے مگر اب بڑھ کر اربوں تک جاپہنچے، روزنامہ جنگ کے سینئر رپورٹر عمر چیمہ کے مطابق یہ ایک عام سے زمیندار تھے ان کے سارے خاندان کی سالانہ آمدنی چھ کروڑ تھی ۔
ان کا ایک بھائی ایک ملازم تھا، سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے کا یہ صرف مالی پروفائل تھا پھر 2000 کے بعد الیکشن لڑتے ہیں اور وفاقی کابینہ کے رکن بننے کے بعد مالی اثاثے بڑھ کر اربوں سے بھی زیادہ ہوگئے، اس وقت ان کے اثاثوں کا حجم 100ارب روپے سے بھی زیادہ ہے۔ موصوف وزیر اعظم عمران خان کی وفاقی کابینہ کا حصہ اور ایک منافع بخش وزارت کے قلمدان کے حامل ہیں، ان کے چھوٹے بھائی صوبائی کابینہ کے اہم ترین وزیر ہیں ،ان کے ایک اور بھائی نادرا ریکارڈ کے مطابق بھائی تو نہیں مگر لینڈ ریونیوریکارڈ کے مطابق بڑے اسٹیک ہولڈر ز میں سے ایک ہیں یہ کاروبار انہوں نے اپنی والدہ کےساتھ مل کر شروع کیا ہے ۔گزشتہ سال ستمبر میں نیب ہیڈ کوارٹر نے ان کے خلاف تفتیش کرنا شروع کیا جس کی بنیاد ایک الزامات سےبھری شکایت تھی، اس شکایت کو ریجنل نیب کے دفتر کو اختیار دیا گیا اور اس پر تین ماہ لگ گئے اور رپورٹ تیار ہوگئی،رپورٹ کے مطابق وزیر کے نہ صرف اثاثے آمدن سے زیادہ پائے گئے بلکہ نیب ہیڈ کوارٹر نے اس رپورٹ پر چپ سادھ رکھی ہے اور انکوائری شروع کرنے کے احکامات نہیں جاری کئے گئے ، گزشتہ دہائی کے چھ سالوں میں اس خاندان نے شاہانہ انداز میں سرمایہ کاری کی ۔
انہوں نے چار شوگر ملز بنائیں، پانچ بجلی بیداکرنے والے کمپنیاں ، چار ٹریڈنگ کمپنیاں جن میں ایک لندن میں ہے، ایک ایتھونال بنانے کی کمپنی اور دو کمپنیاں دیگر شامل ہیں، ان کی زرعی اراضی 712ایکڑ سے بڑھ کر 972ایکڑ تک پھیل گئی،اس کے علاوہ چھ ، سات گھر کئی علاقوں میں ، تصدیق شدہ تفتیشی رپورٹ جو کے نیب ہیڈکوارٹر کو بھیج دی گئی، کچھ جائیدادیں وزیر موصوف نے اپنے نام سے ڈی ایچ اے لاہورمیں خریدیں مگر انتخابی کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیں۔
اسی تفتیشی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بیرون ممالک سے 2011-2018تک97ارب نو کروڑ روپے کی آمدنی بھی ہے، پوری رپورٹ کے مطابق جوائنٹ فیملی کی طرز میں رہنے والے اس خاندان کی موجودہ مارکیٹ ویلیو 100ارب روپے سے زیادہ ہے۔اس معاملے میں مکمل طور پر پر اسرراریت ہے کہ ایک زمیندار خاندان سے چھلانگ لگا کر صنعتکاروں کے بڑے کلب میں شامل ہوگئے مگر نیب ہے کہ ہچکچا رہا ہے کسی بھی قسم کااقدام اٹھانے سے ۔
کوئی بنک کا قرضہ نہیں لیا گیا ، عمارتیں بنتی گئیں اور ایک ایمپائر کھڑی ہوگئی تفتیشی رپورٹ کہتی ہے کہ مزید انکوائری سے مزید جائیداد یں سامنے آئیں گی ۔ اب تک سامنے آنے والے حقائق کی بنیاد صرف بنکوں کی تفصیل ، ٹریول ریکارڑ، بینکنگ اسٹیٹمنٹس ، ایف بی آر کی دستاویزات شامل ہیں۔ وزیر موصوف نے گزشتہ پانچ سالوں میں 189مرتبہ بیرون ممالک کا سفرکیا جس کا مطلب ہے ایک ماہ میں تین مرتبہ، بیرونی دوروں کا مقصد اس وقت تک پتہ نہیں چل سکے گا جب وزیر موصوف کو حراست میں لے کر تفتیشی نیت سے پوچھا نہیں جاتا۔
نادرا ریکارڈ ، ایف بی آر ریکارڈ میں وزیر موصوف کے بھائیوں کی تعداد میں تضاد ہے۔یکا یک اثاثوں میں اضافے کی مجموعی داستان اور جزیات میں وزیر موصوف کی والدہ اور بھائی شیئر ہولڈرز ہیں۔نیب کی کمپلینٹ ویری فیکیشن رپورٹ میں یکایک اثاثوں میں اضافے کو اس طرح بیان کیا گیا ہے’’2006سے اس خاندان کے اثاثے اچانک اور غیر معمولی طور پر بڑھے ان کی آمدنی سے کہیں بڑھ کر اس غیر یقینی طور پر اضافے میں وزیر موصوف کی والدہ اور بھائی ہر معاملے میں پائے گئے ہیں۔
ان میں سے ایک نے 2006میں ایک ارب روپئے کا کیپیٹل تھا، دوسرے بھائی نے 2007میں اتھارائزڈ کیپیٹل 2ارب روپے، اور پھر وزیر موصوف کی والدہ، بھائی اور بھائی کی اہلیہ شیئر ہولڈرز تھے، تیسرا کاروبار 2016میں شروع ہوا اور آخر میں شروع ہونے والے کاروبارکی تاریخ عیاں نہیں کی گئی،ایک بھائی جو کہ شوگر ملز چلاتے ہیں نادرا اس کی تصدیق نہیں کرتا،وزیر موصوف نے 130ملین روپئے کی سرمایہ کاری ایک شوگر مل کے لئے ظاہر کی گئی ہےاورلگتا ہے کہ ان کے بے نامی شیئرز ہیں۔
ایک اور ملز جو خاندان چلا رہا ہے ، یہ تمام فیملی ایک جوائنٹ فیملی سسٹم کےتحت رہتی ہے اس کا تعین نادرا کے رہائشی پتے کے ریکارڈ سے ہوتا ہے۔ چوتھی ٹریڈنگ کمپنی وزیر کے بھائی کے نام ہے، جس میں سے ایک لندن میں ہے،پانچ پاور جنریشن کمپنیزوزیر کے بھائی کے نام پر ہے۔ جبکہ ایک بھائی جو کہ صوبائی وزیر ہے اس کے نام ایتھانول مینوفیکچرنگ کمپنی ہے۔ ابھی تک نیب کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آسکا۔