ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

’’ایسا شخص جس نے خون دیکر24لاکھ بچوں کی جان بچائی ‘‘ اس کا تعلق کس ملک سے ہے اور اس کے خون میں ایسی کیاخاص چیز ہے کہ جو دنیا میں کسی اور کے خون میں نہیں؟ جانئے

datetime 27  جولائی  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) انسانی خون کی اقسام ہیں اور ماہرین طب نے اپنے خواص کے اعتبار سے انہیں مختلف اقسام میں تقسیم کر رکھا ہے۔ اے نیگیٹو، اے پازیٹو، بی نیگیٹو، بی پازیٹو، او نیگیٹو، او پازیٹو۔ انسانی خون کا عطیہ ڈاکٹرز مریض کی جان بچانے کیلئے حاصل کرتے ہیں مگر آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ دنیا میں ایک ایسا شخص بھی موجود ہے جو مسلسل کئی دہائوں سے اپنا خون عطیہ کر رہا ہے۔

اور اس کے خون کی بدولت 24لاکھ بچوں کی جان بچائی جا چکی ہے۔ سڈنی مارننگ ہیرالڈ کی رپورٹ کے مطابق اس 81سالہ شخص کا نام جیمز ہیریسن ہے جس کے خون میں ایک غیرمعمولی اینٹی باڈی موجود ہے جو ریسس (Rhesus)نامی بیماری میں مبتلا بچوں کی زندگی بچانے والی ادویات میں استعمال ہوتی ہے. جیمز کئی دہائیوں سے اپنا خون عطیہ کر رہا ہے جس سے یہ دوائی بنائی جاتی ہے اور مریض بچوں کو دی جاتی ہے. اس کے خون سے بننے والی اس دوائی سے اب تک 24لاکھ بچوں کی زندگی بچائی جا چکی ہے.آسٹریلیا میں جیمز ہیریسن کو ایک ہیرو کا درجہ حاصل ہے.وہ پچھلی 6دہائیوں سے مسلسل اپنے دائیں ہاتھ سے بلڈ پلازما عطیہ کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے لوگ انہیں ’سونے کے بازو والا شخص‘ کے نام سے بھی پکارتے ہیں. انہوں نے 1960ءمیں ڈاکٹروں کے ساتھ مل کراپنے خون میں موجود اینٹی باڈیز سے انجکشن تیار کرنے کا کام شروع کیا تھا. اس انجکشن کو ’اینٹی ڈی انجکشن کا نام دیا گیا. یہ ٹیکہ خون کے نیگیٹو گروپ سے تعلق رکھنے والی حاملہ خواتین کے جسم میں دوران حمل آر ایچ ڈی اینٹی باڈیز پیدا ہونے سے روکنا ہے. ایسی ماں کے پیٹ میں اگر پازیٹو بلڈ گروپ والا بچہ پرورش پا رہا ہو تو یہ آر ایچ ڈی اینٹی باڈیز اسے کے خون کے خلیات کے لیے خطرہ ثابت ہوتی ہیں. جیمز کا کہنا تھا کہ ”14سال کی عمر میں میرا پھیپھڑے کا آپریشن ہوا تھا، آپریشن کے بعد میرے والد نے مجھے بتایا کہ میری جان بچانے کے لیے ڈاکٹروں نے مجھے 13لیٹر خون دیا، یہ تمام خون نامعلوم افراد کی طرف سے عطیہ کیا گیا تھا. میں نے اسی روز عہد کر لیا تھا کہ میں بھی زندگی بھر خون عطیہ کرتا رہوں گا.“رپورٹ کے مطابق جیمز اب تک ایک ہزار سے زائد بار خون دے چکے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ آج بھی وہ اپنے جسم میں سوئی لگتی نہیں دیکھ سکتے. جب ان کے جسم میں سوئی داخل کی جانے لگتی ہے تو وہ منہ دوسری طرف کر لیتے ہیں ۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…