اسلام آباد (این این آئی)افغان صدر کے خصوصی نمائندے عمر داؤد زئی نے کہاہے کہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے اور امن مذاکرات میں پاکستان کا کر دار اہم ہے ،امریکہ طالبان کے ساتھ افغان حکومت کی اجازت اور منظور ی سے مذاکرات کررہاہے اور اگر ہم چاہتے تو مذاکرات منقطع بھی کئے جاسکتے ہیں لیکن افغان حکومت ایسا نہیں کر ناچاہتی کیونکہ یہ مذاکرات ہمارے مفاد میں ہیں ،2019امن کا سال ہے ، افغان حکومت کو توقع ہے کہ طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات مہینوں میں شروع ہو جائیں گے،
پاکستان کی حکومت اسٹیبلشمنٹ افغان مسئلے کے حل پر ایک صفحے پر ہے جو ہمارے اچھی چیز ہے ،امریکیوں سے براہ راست مذاکرات کے بعد طالبان افغان حکومت سے بات چیت کرینگے ۔چار روزہ دورہ پاکستان کے دوران ’’ این این آئی ‘‘ کو دیئے گئے خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ میرا دورہ پاکستان افغان امن عمل میں پاکستان کے کر دار کے حوالے سے ہے ۔انہوں نے کہاکہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ صورتحال تبدیل ہورہی ہے ، عالمی سطح پر کچھ تبدیلیاں وقوع پذیر ہو رہی ہیں ،کچھ نئی ڈویلپمنٹ ہورہی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کی جنوبی ایشیاء سے متعلق حکمت عملی اپنی جگہ ہے مگر اس کے اطلاق کی بات کریں تو مختلف بیانات ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ خطے میں بھی تعلقات میں کچھ تبدیلیاں وقوع پذیر ہورہی ہیں جو ہمیں امید دے رہی ہیں خطے کے تمام ممالک متحرک ہیں جو امن عمل میں مثبت کر دار ادا کر ناچاہتے ہیں اس میں پاکستان بھی شامل ہے ۔ انہوں نے کہاکہ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی دس روز میں افغانستان کے دو دورے کئے ہیں انہوں نے اپنے دوسرے دورے کا آغاز کابل سے کیا اور پھر وہ خطے کے دوسرے ممالک میں گئے انہوں نے کابل میں بھی ہمیں مثبت پیغام دیا اور خطے کے دیگردارالحکومتوں میں بھی مثبت گفتگو کی اور تمام لوگوں کو افغانستان میں امن عمل میں مثبت کر داراد کر نے کی دعوت دی ۔ انہوں نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان اس عمل میں اپنا مثبت کر دار جاری رکھے ۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان میں تبدیلی آئی ہے ،ایک نئی حکومت قائم ہوئی ہے اور ہم پہلی بار یہ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کی نئی حکومت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحے پر ہے جو ہمارے لئے اچھی چیز ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ ماضی میں افغانستان میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ جی ایچ کیو فیصلے کرتا ہے تو جی ایچ کیوسے ہی بات کی جائے ۔انہوں نے کہاکہ اسلام آباد حکومت افغانستان کے معاملے پر جی ایچ کیو کی پالیسی عمل کرتی ہے اب دونوں طرف سے ہمیں ایک ہی پیغام ملا ہے تو جب ہم کسی ایک سے ملتے ہیں تو وہ ایسے ہے جیسے ہم سب سے مل رہے ہیں ۔
افغان صدر کے نمائندے نے کہا کہ یہ ایک مثبت بات ہے جب طاقت کے دو مرکز رہے ہیں اب ایسا نظر آرہا ہے کہ ایک سیاسی طاقت کا مرکز ہے یہ ایک مثبت اشارہ ہے کیونکہ اب ہمیں ایک ہی جگہ بات کرنی ہے ۔انہوں نے کہاکہ طالبان ہمیشہ سے یہ جواز دیتے تھے کہ وہ پہلے امریکیوں سے بات کر ناچاہیے ہیں اس کے بعد وہ افغان حکومت سے بات کریں گے ان کا موقف تھا کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مسائل ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ پہلے وہ یہ مسائل حل کریں اوراس کے بعد طالبان افغان حکومت کے ساتھ میز پر آ جائیں ۔ امریکہ سے طالبان کے مسائل کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ جس میں سے ایک یہ کہ امریکہ نے یہاں آکر ان کی حکومت کا خاتمہ کیا
یہ امریکہ تھا جس نے افغان طالبان رہنماؤں کو گرفتار کر کے گوانتا مو اور دیگر جیلوں میں پہنچایا ۔ انہوں نے کہاکہ افغان حکومت گزشتہ ایک سال سے غور کررہی تھی کہ یہ ایک اچھا خیال ہے کہ طالبان کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنے تحفظات امریکیوں تک براہ راست پہنچائیں تو یہ رکاوٹ ٗ یہ بہانہ دور ہو ۔انہوں نے کہا کہ یہ افغان حکومت تھی جو امریکی حکومت کو اجازت دی کہ طالبان سے بات کریں ۔انہوں نے کہاکہ گزشتہ برس جب امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز خصوصی طورپر کابل آئیں اس دور ان انہوں نے پاکستان کابھی دورہ کیا تھا انہوں نے مختلف سیاسی زعماء سے ملاقاتیں کیں اور ان سے مشورہ کئے ۔افغان خصوصی نمائندے نے کہاکہ سب نے انہیں
کہا کہ یہ اچھا خیال ہے کہ طالبان سے ملیں ۔طالبان سے مذاکرات کا عمل ابھی تک درست سمت میں ہے امریکیوں نے ہمیں بتایا کہ جب وہ طالبان کے ساتھ ایک میز پر آ منے سامنے بیٹھے تو ان سے کہاکہ یہ آپ تھے جو ہم سے براہ راست ملنا چاہیے تھے ہم آپ کے سامنے ہیں تو طالبان نے اپنا نقطہ نظر بیان کیا اور ظاہر ہے کہ اپنے مطالبات ان کے سامنے رکھے جو امریکیوں نے ا فغان حکومت اور زعما کے سامنے رکھے ۔انہوں نے کہاکہ جہاں تک یہ بات ہے ہم خوش ہیں ابھی تک ہمارے کوئی تحفظات نہیں ہیں مگر امریکی اور افغان حکومت کے درمیان یہ طے ہوا کہ وہ افغان طالبان سے ملیں گے ایک بار ٗ دو بار یا تین بار جس کے بعد طالبان افغان حکومت سے ایک میز پر آمنے سامنے بیٹھیں گے
یہ ابھی تک نہیں ہوا ہم نے امید نہیں چھوڑی نہیں ہماری امید میں اضافہ ہوا ہے انشا ء اللہ افغان طالبان اور افغان حکومت جلد آمنے سامنے بیٹھیں گے ۔ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ ہماری اطلاعات کے مطابق ابو ظہبی میں طالبان نے چار ممالک کے نمائندوں سے ملاقات کی مگر افغان وفد سے انہوں نے ملاقات نہیں کی یہ طے ہوا تھا کہ دوسرے مرحلے میں وہ افغان وفد سے جنوری کے پہلے ہفتے میں جدہ میں ملاقات کرینگے مگر طالبان نے میڈیا کو بتایا کہ وہ افغان حکومت کے وفد سے نہیں ملیں گے اس لئے جدہ کا مرحلہ ملتوی ہوگیا ۔افغانستان میں امن کے قیام کے حوالے سے دنیا میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے اور اب یہ جنگ ختم ہونی چاہیے جنگ کے خاتمے کیلئے بین الاقوامی برادری ایک صفحے پر ہے یہ اس سے قبل کبھی نہیں ہوا ۔انہوں نے کہاکہ ماسکو مذاکرات اورایران میں ملاقاتوں کا مقصد یہی ہے کہ طالبان اورافغان حکومت آمنے سامنے بیٹھیں اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے ۔