اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ کے ججوں نے 18ویں اور 21 ویں ترمیم کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران حکومتی وکیل خالد انور کو کھری کھری سنا دیں۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 17 رکنی فل کورٹ بینچ نے سماعت کی ،چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر بنیادی حقوق ہی معطل ہیں تو فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف ریلیف کس طرح ملے گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ فوج کا کام لڑنا ہے اور آپ نے ان کو جج بنا کر ان پر مزید بوجھ ڈال دیا ہے۔ فوج حالت جنگ میں ہے ان پر جج بننے کی ذمہ داری کیوں ڈالی جا رہی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فوجی عدالتوں کا قیام عدلیہ کی نہیں حکومت‘ انتظامیہ اور سول اداروں کی ناکامی ہے کسی اور کی ناکامی ہمارے سروں پر نہ ڈالی جائے۔ عدلیہ پر الزام بازی بند کی جائے،انتظامیہ نے فوج کی ہدایت پر فوجی عدالتیں بنائیں ،فوج کو دہشتگردوں کے خلاف لڑنے کے لئے جج کی کرسی کیوں چاہیے۔ اب یہ روایت بن چکی ہے کہ جب حکومت امن و امان کے قیام میں ناکام ہوتی ہے تو سارا الزام عدلیہ پر لگا دیتی ہے کیا آئین کو دو سال کے لئے معطل کر دیں۔ جبکہ جسٹس ثاقب نے کہا ہے کہ دہشت گردی نے ملکی ادارے تباہ و برباد کرکے رکھ دیئے ہیںکسی نے تو اس لعنت کو ختم کرنا ہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ بنیادی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے۔