اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) پروفیسر مجاہد کامران نے ایک نجی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری یونیورسٹیوں میں ہمیشہ دس سے بیس فیصد استاد ایڈہاک پر کام کرتے ہیں، ہائی کورٹ کے سٹنگ جج ہوتے ہیں، سنڈیکیٹ میں ایڈیشنل سیکرٹری، ہائر ایجوکیشن ہوتے ہیں، ایڈیشنل سیکرٹری فنانس ہوتے ہیں، سینیڈیکیٹ ایک بالکل خود مختار ادارہ ہے، وائس چانسلر کا اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہے،
نیب اگر غلط بھی کسی کو پکڑتی ہے اور میں نے جیل میں رہ کر یہ دیکھا ہے تو ان کی انا اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اب اس کو پکڑ لیا ہے تو اب ہمارے بارے میں یہ بات ثابت نہ ہو کہ ہم نے غلط پکڑا ہے، پروفیسر مجاہد کامران نے کہا کہ بہت سے بے گناہ افراد میں نے وہاں پکڑے ہوئے دیکھے ہیں، انہوں نے کہا کہ نیب کے چودہ کمرے ہیں جن کو ہم سیل کہتے ہیں، ان کا سائز 10X10 ہے، آمنے سامنے ہیں، سات ایک طرف ہیں اور سات دوسری طرف، انہوں نے بتایا کہ شہباز شریف سیل نمبر13 میں تھے، شہباز شریف اپنے سیل میں اکیلے تھے لیکن باقی سیل میں تین تین، چار چار لوگ تھے، وہاں پر دن اور رات کا نہیں پتہ چلتا ہر وقت وہاں لائٹس چلتی رہتی ہیں، ان میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں رات کو آپ لائٹ آف نہیں کر سکتے، یہاں تک کہ آپ کی گفتگو بھی سنی جاتی ہے لیکن شرمناک بات یہ ہے کہ جہاں آپ شاور لے رہے ہوتے ہیں وہاں پر بھی انہوں نے سی سی ٹی وی کیمرہ لگایا ہوا ہے، مجھے معلوم نہیں کہ اس سے تفتیش میں ان کو کیا مدد ملتی ہے، انہوں نے کہا کہ پروفیسر صاحبان کے لیے چارپائیاں لے کر آئیں لیکن میں نے چارپائی نہیں لی، باقی ہمارے پانچ ساتھیوں نے چارپائیاں لے لی لیکن میں نے کہا کہ میں گدے پر ہی سو جاؤں گا۔ پروفیسر مجاہد کامران نے کہا کہ مجھے اس وقت سے ٹارگٹ کیا جا رہا ہے جب سے میں نے امریکن اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کتابیں لکھی ہیں، اصل میں وہ میرے پیچھے پڑے ہوئے تھے،
پہلے انہوں نے میرے خلاف اینٹی کرپشن کا کیس بنوایا، یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی ڈگری کے متعلق، انہوں نے کہا کہ وہ ڈگری مجھ سے پہلے جو وائس چانسلر تھے انہوں نے دی تھی، میں نے زندگی میں حرام کا ایک پیسہ نہیں کمایا، نیب کے اہلکار نے میرے بارے میں اس قسم کی بات کی تو میں سخت غصے میں آ گیا، جب چیئرمین نیب آئے تو میں نے ان سے کہا کہ میں نو سال وائس چانسلر رہا ہوں اور جب میں وہاں سے ریٹائر ہوا تو میں وہاں سے کرائے کے گھر میں گیا ہوں، میں نے لوگوں سے قرضہ لے کر اور اپنا پلاٹ بیچ کر گھر لیا ہے۔ میں نے کہاکہ یہ بیٹھے ہوئے ہیں پروفیسر صاحب جن سے میں نے بیس لاکھ روپے قرضہ لیا ہے، ان سے پوچھ لیں،
آپ میرے بارے میں اس طرح کی گفتگو کیسے کر سکتے ہیں، یہ لوگوں پر تشدد کرتے ہیں اور ان کے بیوی بچوں کے سامنے ان پر تشدد کیا جاتا ہے یہ باتیں کبھی باہر نہیں آئیں، انہوں نے کہا کہ مجھے کوئی توقع نہیں ہے کہ مجھے نیب کورٹس سے انصاف ملے گا، انہوں نے کہا کہ نیب آپ کی دشمن بن جاتی ہے، انہوں نے ہمیں تضحیک کے لیے ہتھکڑیاں ڈالی ہیں،قوم کے ردعمل پر نیب دفاعی پوزیشن پر گئی، پروفیسر مجاہد کامران نے کہا کہ سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو نیب کے ایک پچیس سالہآفیسر نے کہاکہ میں تھپڑ مار مار کر آپ کی چیخیں نکال دوں گا، انہوں نے کہا کہ وہ ستر سال کے ریٹائر شخص کو یہ الفاظ کہہ رہا ہے۔ آپ پروفیسر مجاہد کامران کی اس گفتگو سے اندازہ لگائیں کہ پاکستان میں استاد کا مقام کیا ہے؟