اسلام آباد (آئی این پی) مسلم لیگ( ن) نے میا ں نواز شر یف کے خلاف فیصلے پر قانونی جنگ لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلے بھی قانون کے سامنے نہیں ٹھہر سکیں گے کیونکہ ان کی بنیاد سیاست اور انتقام پر ہے، ایک سلیکٹڈ وزیراعظم سلیکٹڈ احتساب کررہا ہے، سیاست اور جمہوریت کو بدنام کر کے کسی اور کا راستہ ہموار کرنے کیلئے ان کو لایا گیا، ہم سویلین کے حق حکمرانی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، انتقامی کاروائی سے مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا،
عدالت نے فیصلہ دیا ہے عدالت سے ہی ہمیں ریلیف ملے گا، ہماری ہمدردی میں اضافہ ہورہا ہے،اس وقت ایسی حکومت مسلط ہے جو وینٹی لیٹر کے سہارے زندہ ہے، ان ہتھکنڈوں سے عمران خان اپنی جماعت کے کردار کو مضبوط نہیں کر سکتے، جنہوں نے بھول کر بلے پر مہریں لگائیں ان کی چیخیں نکل چکی ہیں وہ بھی جھولیاں اٹھا کر دعا کر رہے ہیں کہ اس حکومت سے نجات ہمیں کب ملے گی، پشاور میٹرو کا آڈٹ کیوں نہیں کروایا جاتا، اس کا آڈٹ سب سے پہلے کیا جائے،نیب کا رویہ ناقابل قبول ہے، حکومت کی پالیسی صرف یہ ہے کہ تمام نجی ٹی وی چینلز بند کر دیئے جائیں، یہ میڈیا کو کنٹرول کر کے نجی چینلز پر نیب کے کیسز بنائیں گے، ان خیالات کا اظہار منگل کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما ء احسن اقبال ، مشاہدحسین سید، مشاہداللہ خان ، محمد زبیر عمر، رانا ثناء اللہ ، مصدق ملک اور مریم اورنگزیب نے کیا ۔احسن اقبال نے کہا کہ کل احتساب عدالت نے دو فیصلے دیئے ایک میں نواز شریف کو بری کیا گیا جبکہ دوسرے فیصلے میں نواز شریف کو سات سال کی سزا دی گئی، اس سے پہلے بھی ایک مقدمہ میں فیصلہ دیا گیاجس میں لکھا گیا کہ نیب کرپشن کا کوئی ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا۔ احسن اقبال نے کہا کہ حیرت کا باعث ہے کہ جس مقدمے میں سزا دی گئی ہے وہ کمپنی 2001میں قائم کی گئی
جبکہ اس وقت نواز شریف کا خاندان جلاوطن تھا، 1999میں ان کی حکومت کا تختہ الٹا جا چکا تھا، مشرف کی حکومت تھی، انہوں نے کہا کہ پہلے نواز شریف پر الزام لگا کہ اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی، اس بار الزام لگا کہ بیٹے نے پیسے بھیجے ہیں ، مشرق وسطیٰ میں پاکستانی کام کرتے ہیں اور وہ اپنے خاندان کو پوری کمائی بھیجتے ہیں اگر یہ دلیل مانی جائے تو ہر وہ پاکستانی جو باہر سے پیسے پاکستان بھیجتے ہیں وہ سارے قصور وار ہیں، ایک سلیکٹڈ وزیراعظم سلیکٹڈ احتساب کررہا ہے،
تحریک انصاف کے ایم این ایز پر چاہے سنگین الزامات ہوں ان کیلئے آزادی ہے، نون لیگ کے رہنماؤں کو انکوائری کے دوران ہی گرفتار کرلیا جاتا ہے جبکہ تحریک انصاف والوں کے خلاف قانون حرکت میں نہیں آتا، (ن) لیگ کے رہنماؤں کو روزانہ ی بنیاد پر سماعت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ پی ٹی آئی کے ریفرنس میں کئی ہفتوں کا التواء کر دیا جاتا ہے،اس وقت ایسی حکومت مسلط ہے جو وینٹی لیٹر کے سہارے زندہ ہے، ان ہتھکنڈوں سے عمران خان اپنی جماعت کے کردار کو مضبوط نہیں کر سکتے،
غریب عوام پر 125دنوں میں ہی دس سال سے زیادہ مہنگائی مسلط کر دی گئی ہے جنہوں نے بھول کر بلے پر مہریں لگائیں ان کی چیخیں نکل چکی ہیں وہ بھی جھولیاں اٹھا کر دعا کر رہے ہیں کہ اس حکومت سے نجات ہمیں کب ملے گی ، احسن اقبال نے کہا کہ انتقامی کاروائی سے مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، ہماری ہمدردی میں اضافہ ہورہا ہے، ہم قانونی جنگ لڑیں گے، یہ فیصلے بھی قانون کے سامنے نہیں ٹھہر سکیں گے کیونکہ ان کی بنیاد سیاست اور انتقام پر ہے۔
اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر عمر نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے ، تحریک انصاف کے لوگوں نے خود مانا ہے کہ ان کی جائیدادیں باہر ہیں، ہمیں بتایا جائے کہ پیسے یہاں سے کیسے بھیجے گئے تھے چاہے وہ علیم خان ہوں، علیمہ خان ہوں یا جہانگیر ترین ہوں، جائیدادیں بنانے کیلئے انہوں نے یہاں سے پیسے کیسے بھیجے۔ انہوں نے کہا کہ پشاور میٹرو کا آڈٹ کیوں نہیں کروایا جاتا، اس کا آڈٹ سب سے پہلے کیا جائے،پرویز الٰہی کو عمران خان نے سب سے بڑا ڈاکو کہا،
انہوں نے کون سا ڈاکا ڈالا یہ عمران کو بتانا چاہیے،۔ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما مشاہد حسین سید نے کہا کہ ہم لاہور میں پروفیسر جاوید کے واقعہ کی مذمت کرتے ہیں، اس معاملے کا نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس نے نوٹس لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں دو ایم این ایز کو روکا گیا، نیب کا رویہ ناقابل قبول ہے۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ موجودہ فیصلے پر بات کرنا ہمارا حق ہے، ایک کیس میں قطری حلال جبکہ دوسرے کیس میں حرام ہے، ایک بیٹے کو دادا نے سرمایہ فراہم کیا وہ ٹھیک ہے
لیکن اس کے بھائی کو دادا نے سرمایہ فراہم نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ عدالت نے فیصلہ دیا ہے عدالت سے ہی ہمیں ریلیف ملے گا، یہ ہمارے لئے کوئی نئی چیز نہیں ہے، اس سے پہلے ہائی جیکنگ کیس میں نواز شریف کو سزا سنائی گئی، پھر عدالتوں سے ہی ریلیف ملا، ہمیں عدالتوں کا احترام ہے، نیب کا ادارے کے طور پر بھی ہمیں احترام ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا پر سینسر شپ ہے، میڈیا بھی مشکل ترین دور سے گزررہا ہے، فیصلوں کے خلاف ہم نے قانون و آئین کا راستہ اختیار کیا ہے،
ہم اس جعلی مینڈیٹ اور مہنگائی کے خلاف احتجاج کریں گے۔ اس موقع پر سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ گندی گفتگو دو لوگ کرتے ہیں، ایک پنڈی کا شیطان اور دوسرا جہلم کا ڈبو پہلوان، بدبو کے بھبھکے ان کے منہ سے نکلتے ہیں، ایک تو یہ ہیں ہی گندگی کا ڈھیر اور دوسرا کچری کنڈی سے کم نہیں،یہ حکومت کرپشن کے حق میں ہے، تین میٹرو 80ارب میں کی بنی ہیں، جبکہ وہ خیبرپختونخوا میں ایک بھی نہیں بنا سکے، 456افراد کے خلاف کاروائی کیوں نہیں کی گئی، سیاست اور
جمہوریت کو بدنام کر کے کسی اور کا راستہ ہموار کرنے کیلئے ان کو لایا گیا، کراچی کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں سے صرف ایک پی ٹی آئی جیتی ہے، کیا شہباز شریف کو فیصل واوڈا ہرا سکتا ہے؟ان کو لایا گیا اس سے پیچھے کچھ مقاصد ہیں۔ مشاہد اللہ خان نے کہا کہ ہم سویلین کے حق حکمرانی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مصدق ملک نے کہا کہ لگ رہا ہے کہ یہ کوئی ہٹلر ہے جس نے یوٹرن لینا سیکھ لئے ہیں، اس مقدصے میں ایف آئی اے نے لکھ کر کہا کہ
کوئی کرپشن، کک بیک اور منی لانڈرنگ نہیں ہوئی پھر بھی سزا ہو گئی۔ احسن اقبال نے کہا کہ موجودہ حکومت تین گنا زیادہ کرپشن کی مرتکب ہو رہی ہے، یہ حکومت احتساب کا نام لے کر کرپشن کررہی ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی سے پانچ لاکھ لوگ بے روزگار ہو گئے، عمران خان کے300کنال کے گھر کی تعمیر غیر قانونی ہے، کیوں بلڈوزرنے اسے نہیں گرایا، احتساب کیا جائے تو عمران خان کی آدھی کابینہ جیل میں ہو گی، اگر آپ بامشرف ہو جائیں تو آپ نیک ہیں اور اگر بے مشرف ہو جائیں تو گناہ گار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں احتساب کے نام پر 90کروڑ کا جھٹکا دیا گیا ہے آخر کیا وجہ ہے وہ احتساب کمیشن کیوں لپیٹا گیا، امید ہے کہ چیف جسٹس اس نوے کروڑ کی ریکوری کیلئے از خود نوٹس لیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا کہ اس حکومت کی کوئی نئی میڈیا پالیسی نہیں، پالیسی صرف یہ ہے کہ نجی چینلز بند کر دیئے جائیں، تا کہ علیمہ باجی کی چوری کی بات نہ کریں، ہیلی کاپٹر کیس پر بات نہ کریں، یہ میڈیا کو کنٹرول کر کے چینلز پر نیب کے کیسز بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اشتہارات کے تمام ریٹس آفیشل ہوتے تھے اور ویب سائٹ پر جاری ہوتے تھے، ۔