کنبرا(نیوز ڈیسک)آسٹریلیا کے وزیراعظم اسکوٹ موریسن نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک اب مغربی بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتا ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ تل ابیب سے سفارت خانے کی منتقلی پر امن تصفیے سے قبل عمل میں نہیں آئے گی۔موریسن کے مطابق بیت المقدس کو امن معاہدے میں وضع کیے جانے پر آسٹریلیا مستقبل کی ایک فلسطینی ریاست کے
حوالے سے توقعات کی بھی پاسداری کرے گا جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو۔موریسن نے باور کرایا کہ مشرق وسطی میں “لبرل جمہوریت” کی سپورٹ آسٹریلیا کے مفاد میں ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ایسی جگہ شمار کیا جہاں اسرائیل کو “بدسلوکی” کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق موریسن اپنے تازہ اقدام کے ذریعے یہودی اور مسیحی ووٹرز میں اپنی مقبولیت کا گراف بلند کرنا چاہتے ہیں اور آئندہ برس عام انتخابات سے قبل امریکا میں اپنے “دوست بنانا” چاہتے ہیں۔ تاہم ساتھ ہی یہ فیصلہ آسٹریلیا اور انڈونیشیا کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کر دے گا۔ آسٹریلیا کی وزارت خارجہ اپنے بیان میں کہہ چکی ہے کہ گزشتہ ہفتوں کے دوران جکارتا میں آسٹریلیا کے سفارت خانے اور سورابایا میں اس کے قونصل خانے کے اطراف ہونے والے احتجاجی مظاہرے آنے والے دنوں میں بھی جاری رہنے کی توقع ہے۔دوسری جانب فلسطینی صدر کے مشیر برائے خارجہ ماور نبیل شعث نے باور کرایا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے عرب اور اسلامی ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ آسٹریلیا کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیے جانے کی صورت میں اس کا اقتصادی بائیکاٹ کیا جائے۔ شعث نیگزشتہ روز نشر ہونے والے ایک ٹی وی انٹرویو میں آسٹریلوی وزیراعظم کو خبردار کرتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ یہ متوقع فیصلہ “مفت ہاتھ نہیں آئے گا”۔