اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)مولانا سمیع الحق شہید پاکستان کے ان جید علمائے کرام میں شامل تھے جن کا احترام نہ صرف ان کے مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کرتے تھے بلکہ آپ کی غیر متنازعہ علمی و دینی خدمات اور شخصیت کے باعث دیگر مکتبہ فکر کے افراد بھی آپ کا احترام کرتے ہیں۔ صحافتی حلقو ں میں بھی آپ کا ایک خاص اثر و رسوخ تھا اور آپ کے نظریات سے
اختلاف کرنے والے صحافی بھی آپ کی بے پناہ عزت کرتے تھے۔ مولانا سمیع الحق کی شہادت یقیناََ پاکستان اور امت مسلمہ کیلئے ایک بہت بڑا نقصان ہے ، مولانا سمیع الحق کیا یادیں تازہ کرتے ہوئے معروف صحافی حامد میر اپنے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ وہ ہر مشکل وقت میں میرے بلائے بغیر خود ہی میرے ساتھ آ کھڑے ہوتے اور پھر میری وجہ سے جس دبائو کا سامنا کرتے اُس کا کبھی ذکر تک نہ کرتے۔ کچھ سال پہلے سوات میں ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملہ ہوا تو کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ میں نے اس حملے کی مذمت کی تو اس کالعدم تنظیم کے ترجمان احسان اللہ احسان نے میرے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کیا۔ پھر میری گاڑی کے نیچے بم نصب کیا گیا اور احسان اللہ احسان نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ یہ وہ موقع تھا جب مولانا سمیع الحق خود چل کر اسلام آباد آئے اور مجھے کہا بتائو کس کے خلاف کیا کہنا ہے، میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں۔ جب مجھ پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا تو اُن پر دبائو ڈالا گیا کہ میری اور جیو ٹی وی کی مخالفت کریں۔ یہ وہ وقت تھا جب کچھ ’’مجاہدین اسلام‘‘ نے ہمارے خلاف غداری اور کفر کے فتوے لگائے اور ہمارے پتلے بھی جلائے لیکن مولانا صاحب نے کوئی فرمائشی فتویٰ دینے سے انکار کر دیا۔ 2016ءمیں کچھ طاقتور لوگوں نے توہین رسالتؐ کے جھوٹے الزام کو ایک ہتھیار کے طور پر
استعمال کرنا شروع کیا۔ میں نے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف ایک کالم لکھا تو اس میں سے توہین رسالتؐ کا پہلو تلاش کر کے مجھے ایک مقدمے میں الجھا دیا گیا۔ اس موقع پر ایک دفعہ پھر مولانا سمیع الحق میری مدد کو آئے اور انہوں نے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے میرے حق میں ایک تفصیلی فتویٰ جاری کرایا جس میں کہا گیا کہ بغیر تحقیق کے کسی کے خلاف فتویٰ دینا یا رائے قائم کرنا گناہ ہے۔
میرے حق میں جامعہ اشرفیہ لاہور اور جامعہ نعیمیہ لاہور سمیت کچھ دیگر مدارس سے بھی فتوے جاری ہوئے لیکن دارالعلوم حقانیہ سے مفتی مختار اللہ حقانی کا جاری کردہ فتویٰ بہت تفصیلی اور جامع تھا اور جب کچھ بااثر لوگوں نے مولانا سمیع الحق سے میری حمایت پر ناراضی کا اظہار کیا تو اُنہوں نے اس ناراضی کو اپنی مسکراہٹ میں اڑا دیا۔ خود مولانا سمیع الحق کو بھی اپنی زندگی
میں متعدد بار جھوٹے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسا ہی ایک الزام اُن پر 1991ءمیں لگایا گیا تھا جس کا ذکر جناب عطاء الحق قاسمی نے بھی اپنے کالم میں کیا ہے۔ مولانا پر سیاسی دبائو ڈالنے کے لئے ایک بدنام عورت اُن کے خلاف کھڑی کر دی گئی لیکن وہ کچھ بھی ثابت نہ کر سکی۔ مولانا صاحب سیاست کے میدان میں کمزور رہے۔ بڑی بڑی جماعتیں مولانا کو اسلام کا نام لے کر استعمال کرنے
کی کوشش کرتی رہیں۔ کچھ سالوں سے مولانا سمیع الحق کی زیادہ توجہ تصنیف و تالیف اور تحقیق کی طرف تھی۔ 2015ءمیں اُنہوں نے دس جلدوں میں ’’خطبات مشاہیر‘‘ کو شائع کیا جس میں منبر حقانیہ سے کئے گئے اہم شخصیات کے بیانات اور ’’الحق‘‘ میں شائع ہونے والے مضامین کو موضوعات کی ترتیب سے اکٹھا کر دیا گیا۔’’خطباتِ مشاہیر‘‘ کی جلد اوّل میں انہوں نے
دارالعلوم دیوبند کے سابق مہتمم قاری محمد طیب قاسمی کی ایک تقریر شامل کی ہے جس میں دین اور شعائر دین کا احترام بیان کیا گیا اور کہا گیا کہ علماء کو ایک دوسرے کی بے ادبی اور تذلیل نہیں کرنا چاہئے۔ کئی معاملات میں امام شافعیؒ نے امام ابوحنیفہؒ سے اختلاف کیا لیکن کہیں بھی بے ادبی کا شائبہ نہیں آنے دیا۔ ایک دفعہ مولانا قاسم نانوتوی نے دہلی کی لال کنویں والی مسجد کے امام کے
پیچھے صبح کی نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کی کیونکہ اُن کی قرأت بہت اچھی تھی۔ مولانا محمود الحسن صاحب نے نانوتوی صاحب کو بتایا کہ وہ امام تو آپ کی تکفیر کرتا ہے لیکن نانوتوی صاحب اگلی صبح اپنے شاگردوں کے ہمراہ نماز پڑھنے لال کنویں والی مسجد جا پہنچے۔ نماز ختم ہوئی اور مسجد کے امام کو پتہ چلا کہ اُن کے پیچھے نماز پڑھنے والوں میں مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا محمود الحسن
بھی شامل تھے تو بڑا شرمندہ ہوا اور اُن سے مصافحہ کر کے شرمندگی کا اظہار کرنے لگا۔ نانوتوی صاحب نے اُس کی وہ غلط فہمی دور کی جس کی وجہ سے وہ ان کی تکفیر کرتا تھا اور کہا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی توہین پر تکفیر واجب ہے لیکن توہین کی درست تحقیق بھی واجب ہے۔ مولانا سمیع الحق صاحب نے 2016ءمیں اپنی ڈائری شائع کی تھی۔ یہ ڈائری اُن صاحبان کو ضرور پڑھ لینی چاہئے
جو مولانا کو ’’فادر آف طالبان‘‘ کہتے ہیں۔ مولانا کے والد محترم مولانا عبدالحق صاحب نے ایک درویش حاجی صاحب ترنگزئیؒ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ خان عبدالغفار خان (باچا خان) بھی ترنگزئی ؒصاحب کے پیروکار تھے اور مولانا سمیع الحق نے اپنی ڈائری میں باچا خان کے ساتھ ہونے والی وہ گفتگو شامل کی ہے جو 1958ءمیں حاجی صاحب ترنگزئیؒ کی مسلح تحریک کے بارے
میں ہوئی جس کا مقصد برصغیر سے انگریزوں کو بھگانا تھا۔ اس ڈائری میں کہیں ولی خان کی دارالعلوم حقانیہ میں آمد کا ذکر ہے کہیں اجمل خٹک کی باتیں ہیں، کہیں ہری پور جیل میں مولانا مفتی محمود کے ساتھ گزرے ایام اسیری کی یادیں ہیں کہیں لاہور میں داتا گنج بخشؒ کے مزار پر فاتحہ خوانی اور مولانا بہاء الحق قاسمی سے ملاقاتوں کا ذکر ہے۔ اس ڈائری میں امام احمد بن حنبلؒ کی شان میں اشعار بھی نظر آتے ہیں اور میر پور (بنگلہ دیش) میں حضرت شاہ علی بغدادیؒ کے مزار کی زیارت کا بھی ذکر ہے۔