راولپنڈی (آن لائن)پولیس کے مطابق پاکستان کی ایک بڑی مذہبی شخصیت کاگھر میں اکیلے قتل ہو جانااور گھر کے باہر کوئی سکیورٹی گارڈنہ ہونا انتہائی معنی خیزہے پولیس ذرائع اس بات کی جانب بھی اشارہ کر رہے ہیں کہ حملہ آوروں کا مولانا سمیع الحق سے قریبی تعلق تھا جس سے وہ انتہائی آسانی سے مولانا سمیع الحق کے گھر کے اندر پہنچ گئے جن کے بارے میں یہ بھی خہا جاتا ہے کہ وہ پہلے بھی مولانا سے ملنے آتے تھے
حالانکہ روائتی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں آتشیں اسلحے کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن مولانا سمیع الحق پر چھریوں سے وار کئے گئے اس پہلو کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے کہ حملہ آور چھریوں کے ہمراہ مولانا سمیع الحق کے گھر داخل ہوئے یا چھری بھی اسی گھر کی استعمال گئی وقوعہ کے بعد مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے مولانا حامد الحق کا موقف تھاکہ افغان حکومت اور مختلف طاقتوں کی جانب سے والد کو خطرہ تھا کیونکہ مولانا سمیع الحق امریکہ کے تسلط سے افغانستان کو آزاد کرانا چاہتے تھے حامد الحق کا یہ بھی کہنا تھاکہ انہوں نے پولیس اور سکیورٹی اداروں کو دہمکیوں کے حوالے سے آگاہ کر دیا تھا جبکہ دارلعلوم اکوڑہ خٹک میں بھی سکیورٹی انتہائی سخت کر دی تھی لیکن مولانا سمیع الحق ذاتی طور پر سکیورٹی پسند نہیں کرتے تھے اور سفر میں بھی رفقا کار ساتھ ہوتے تھے جس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے اگر مولانا سمیع الحق کی زندگی کو خطرات لاحق تھے تو ان کے ساتھ مناسب اور ذاتی سکیورٹی کیوں نہ تھی اور ان کی صاحبزادے سمیت فیملی کے دیگر افراد نے ان کی سکیورٹی پر خاطر خواہ توجہ کیوں نہ دی اور اگر انہوں نے پولیس کو اس حوالے سے آگاہ کر رکھا تھا تو انتظامیہ سطح پر بھی اس جانب توجہ کیوں نہ دی گئی مولانا سمیع الحق کے سفاکانہ قتل کے بعد عمومی تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ملک کی اتنی بڑی مذہبی شخصیت کا قتل اتنی خاموشی سے کیسے ممکن ہوا۔