ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

آسیہ بی بی کی خفیہ کتاب بھی منظر عام پر ، جیل میں قید آسیہ بی بی فرانسیسی خاتون صحافی کیساتھ مکمل رابطے میں رہی، غیر ملکی صحافی کیساتھ اسکا رابطہ کس سابق وفاقی وزیر نے کروایا؟جرمن نشریاتی ادارے کے حیران کن انکشافات

datetime 2  ‬‮نومبر‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)آسیہ بی بی کی آپ بیتی منظر عام پر، فرانسیسی صحافی خفیہ طور پر آسیہ بی بی کیساتھ رابطے میں رہی، جیل میں قید آسیہ بی بی اور فرانسیسی خاتون صحافی کے درمیان رابطہ کروانے والا کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کا سابق وفاقی وزیر نکلا ۔ تفصیلات کے مطابق جرمن خبر رساں ادارے کی ویب سائٹ پر ایک بلاگ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ آسیہ بی بی کی آپ بیتی پر

مشتمل کتاب یورپی ممالک میں منظر عام پر آگئی ہے اور یہ کتاب آسیہ بی بی نے اپنےجیل میں شب وروز اور توہین رسالت سے منسلک واقعہ سے متعلق فرانسیسی خاتون صحافی کی مدد سے لکھی ہے۔ فرانسیسی خاتون صحافی آسیہ بی بی کیساتھ جیل میں مکمل رابطے میں تھی اور یہ یہ رابطہ طالبان کے ہاتھوں قتل ہونیوالے پیپلزپارٹی دور کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی کے ذریعے ہوا تھا۔جرمن ویب سائٹ میں شائع بلاگ کے مطابق آسیہ کو کبھی ایسا خیال بھی نہیں آیا تھا کہ  گاؤں کے قریبی کنویں سے بھرے پانی کے گلاس کی وجہ سے توہین مذہب کے قوانین کے تحت سزائے موت سنائی جائے گی۔پہلے شیخوپورہ جیل کی دیواروں اور پھر اس کی کال کوٹھری میں اپنی زندگی کے نو برس گزارنے پر مجبور آسیہ بی بی کو یقین نہیں تھا کہ اک دن اس کی بے گناہی پیارے پاکستان جیسے ملک میں ثابت ہو جائے گی۔ فرانسیسی خاتون صحافی کے ساتھ جیل میں رابطے کے دوران آسیہ بی بی نے  کال کوٹھری سےرابطے میں بتایا تھا کہ ’’میں واقعی نہیں بتا سکتی کہ میرے محسوسات کیا ہیں، میں خوف تو محسوس کرتی ہوں تاہم اب پہلے جیسی حالت نہیں رہی کہ کانپنے لگ جائوں ۔ رونا تو آتا ہے تاہم اب خوف کی وہ حالت نہیں۔اپنے جیل سے فرانسیسی خاتون کیساتھ رابطے میں آسیہ بی بی کا کہنا تھا کہ میں نے ہمت نہیں ہاری ۔ وہ خود کو نا انصافی کا شکار بیان کرتی۔ میرے آنسو مجھے یہ بھی یاد دلاتے ہیں

کہ میں بے قصور ہوں۔‘‘ یہ الفاظ آسیہ بی بی کی اپنی کہانی کی کتاب میں ہیں جو اس کی قید کے دوران اس کی دوست بن جانے والی ایک خاتون فرانسیسی صحافی ایزابیلا تولے نے اس کے ساتھ اس امید سے لکھی کہ شاید یہ کتاب آسیہ بی بی کو بچا لے،فرانسیسی خاتون صحافی اور آسیہ بی بی کے درمیان کیسے رابطہ ہوا۔ اس حوالے سے جرمن نشریاتی ادارے کی ویب سائٹ پر شائع ہونیوالے

بلاگ میں انکشاف کیا گیا ہے کہاس فرانسیسی صحافی نے آسیہ بی بی کی قید اور پھر سزائے موت کی خبریں میڈیا میں پڑھیں اور پھر اسے آسیہ ب بی سے ہمدردی پیدا ہوئی۔ یہ ایک عورت کی عورت سے ہمدردی تھی، ایک انسان کی دوسرے بے بس انسان سے ہمدردی تھی۔ اس خاتون صحافی نے پاکستان آنے اور آسیہ بی بی سے دوستی رکھنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن خاتون صحافی آسیہ بی بی سے

کبھی ملی نہیں اور نہ ہی مل سکتی تھیں۔ پاکستانی حکام کیسے چاہتےکہ ایک غیرملکی صحافی کو توہین مذہب کے الزامات میں سزائے موت کا انتظار کرنے والی سے ملنے کی اجازت دی جائے۔ لیکن اس صحافی خاتون نے آسیہ بی بی سے دوستی کا ایک ہی طریقہ نکالا کہ آسیہ بی بی پر کتاب لکھی جائے۔ آسیہ بی بی کی کہانی آسیہ بی بی کی زبانی۔سابق صدر آصف علی زرداری کے دور صدارت میں

مقتول وفاقی وزیر شہباز بھٹی اس سے قبل آسیہ بی بی کے وکیل بھی تھےاور وہ محض اس مسیحی عورت کے وکیل ہونے کی بنا پر طالبان کے ہاتھوں قتل ہوئے، جیسا کہ انہوں نے اس کے قتل کے ذمہ داری قبول بھی کی۔ تو شہبار بھٹی کی معرفت فرانسیسی صحافی خاتون اور سزائے موت کی قیدی آسیہ بی بی کے مابین رابطہ ہوا۔ طے یہ ہوا کہ ہر دو ہفتے بعد آسیہ بی بی سے ملاقات کو جانے والا

اس کا شوہر عاشق مسیح فرانسیسی صحافی کے سوالات جیل لے جائے گاور آسیہ بی بی کے جوابات لے آئے گا۔ اسی طرح آسیہ بی بی کی کہانی مکمل ہوئی جسے مکمل صیغہء راز میں رکھا گیا۔ بقول شریک مصنفہ فرانسیسی صحافی خاتون کی کتاب کا ایک ایک صفحہ آسیہ بی بی کو پڑھ کر سنایا گیا اور اس پر ان کے دستخط بھی لیے گئے۔ایک سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب آسیہ بی بی کی

نوبرسوں پر مشتمل یادداشتوں پر مشتمل ہے اور اس کا انگریزی سمیت کئی دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔ اس کتاب کی تمام رائلٹی آسیہ بی بی کے شوہر اور بچوں کو ملی ہے۔ بقول اس فرانسیسی صحافی کے اس کتاب سے حاصل ہونے والی آمدنی آسیہ بی بی کے خاندان کے گزارے کے لیے کافی ہے اور اس سے آسیہ بی بی کی جسمانی طور پر معذور بیٹی کا بہتر علاج ممکن ہوا۔

فرانسیسی صحافی کی مدس سے لکھی گئی کتاب میں آسیہ بی بی نے توہین رسالت کے جرم کےحوالے سے بھی بیان دیا ہے۔ آسیہ بی بی اس کتاب میں کہتی ہے کہ،’’میں نے کبھی توہین نہیں کی۔ میں بے قصور ہوں۔ میں نے زندگی بھر ایسا کوئی جرم نہیں کیا۔ میں ساری دنیا کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں پیغمبر اسلام کا احترام کرتی ہوں۔ میں ایک عیسائی ہوں اور خدا پر یقین رکھتی ہوں لیکن سب کو

کسی پر بھی یقین کا حق حاصل ہے۔‘‘ آسیہ بی بی نے اسی کتاب میں لکھا تھا کہ اس کی قید محض جیل کی دیواروں کے پیچھے ہونا نہیں بلکہ اسے اپنے بچوں سے جدا کرنے کے مترادف ہے،جنہیں وہ پنجابی شہزادوں کی کہانیاں سنایا کرتی تھیں، جو اس نے اپنی ماں سے سنی تھیں۔جرمنی نشریاتی ادارے کی ویب سائٹ پر شائع ہونیوالے بلاگ میں آسیہ بی بی کی رہائی کے فیصلے کا خیر مقدم کرتےہوئے اسے قانون کی بالادستی کا مظہر قرار دیا گیا ہے اور آسیہ کے بعد ملتان جیل میں قید پروفیسر جنید حفیظ اور  دیگر ملزمان کی رہائی کی امید کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…