لاہور (نیوز ڈیسک) مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کو گزشتہ روز نیب نے آشیانہ ہاؤسنگ سکینڈل کیس میں گرفتار کر لیا تھا ہفتہ کے روز انہیں احتساب عدالت میں پیش کیا گیا، نیب نے ان کا پندرہ روزہ جسمانی ریمانڈ مانگا لیکن احتساب عدالت نے ان کا 10 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا، جس کے میاں شہباز شریف کو نیب حوالات منتقل کر دیا گیا،
معروف قانون دان بیرسٹر علی ظفر نے میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ نیب کا قانون کہتا ہے کہ ریفرنس فائل کرنے سے قبل انکوائری اسٹیج اور انویسٹی گیشن اسٹیج میں نیب چیئرمین کسی بھی وقت کسی ملزم کو گرفتار کر سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایسی گرفتاری کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں ایک وجہ تو یہ ہے کہ تفتیش کرنی ہے اور معلومات حاصل کرنی ہیں، اس وجہ سے گرفتار کیا جا سکتا ہے اور دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ اگر نیب اس حتمی فیصلے پر پہنچ جائے کہ اب ہمارے پاس اتنی شہادت موجود ہے کہ ملزم کے خلاف جُرم ہمارے مطابق ثابت ہو گیا ہے تو ملزم کو گرفتار کر لیاجاتا ہے۔ معروف قانون دان علی ظفر نے بتایا کہ نیب قانون کے سیکشن 10 کے مطابق اگر کسی ملزم پر کرپشن کے الزام ثابت ہو جائیں تو ملزم کو 14 سال قید کی سزا کے ساتھ جرمانہ بھی عائد ہوتا ہے، اس کے علاوہ اگر ملزم کے نام کوئی جائیداد ہے تو اسے بھی ضبط کیے جانے کا امکان ہے۔ معروف قانون دان نے کہا کہ میاں شہباز شریف کی گرفتاری نیب قانون کے مطابق ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کو گزشتہ روز نیب نے آشیانہ ہاؤسنگ سکینڈل کیس میں گرفتار کر لیا تھا ہفتہ کے روز انہیں احتساب عدالت میں پیش کیا گیا، نیب نے ان کا پندرہ روزہ جسمانی ریمانڈ مانگا لیکن احتساب عدالت نے ان کا 10 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا، جس کے میاں شہباز شریف کو نیب حوالات منتقل کر دیا گیا