کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک) سینیٹ میں مالی خسارے کے حوالے سے پیش کی گئی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ سال 18-2017 کے دوران 53 ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق سینیٹر شبلی فراز کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ نیشنل گرڈ سے 3.9 فیصد بجلی چوری ہورہی ہے، ایک لاکھ 20 ہزار 4 سو گیگاواٹ ہاور اور 11.37 روپے فی یونٹ
فروخت کی بنیاد پر بجلی چوری کی مالیت 53.4 ارب روپے بنتی ہے۔ اس کے ساتھ ہائی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن( ٹی اینڈ ڈی) کی مد میں ہونے والا نقصان گزشتہ 5 سالوں کے مالی خسارے میں ایک سو 87 ارب روپے ہے۔ بجلی کے ناقص ترسیلی نظام سے قومی خزانے کو 213 ارب کا نقصان رپورٹ کے مطابق بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا ٹی اینڈ ڈی نقصان 18.3 فیصد تک پہنچ چکا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں اس مد میں ہونے والا قابلِ قبول نقصان 10 فیصد کے قریب ہے۔ اس سلسلے میں پشاور، کوئٹہ، سکھر، اور حیدرآباد کی تقسیم کار کمپنیوں کی بدترین کارکردگی کے سبب انہیں 22 سے 38 فیصد نقصان کا سامنا ہے اور مالی سال 2018 کے آخر تک ان کی مجموعی قابلِ وصول رقم ایک سو 54 ارب 5 کروڑ سے 8 سو 24 ارب 4 کروڑ ہے۔ جس میں سے جاری نادہندگان اور مستقل نادہندگان کی قابلِ وصول رقم کا تخمینہ 5 سو ارب 2 کروڑ روپے ہے جبکہ وفاقی حکومت اور متعلقہ اداروں کے 2 سو 44 ارب 3 کروڑ روپے شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 53 لاکھ بجلی کے کنیکشن سے ادائیگی نہیں کی جارہی جس کا مجموعی نقصان 4 سو 4 ارب 80 کروڑ روپے ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2017 میں حکومت پاکستان کی جانب سے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی سرمایہ کاری میں 71 ار ب روپے کا اضافہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے صارفین کے لیے نوٹیفکیشن میں تاخیر کے سبب سال 17-2018 کے درمیان گردشی قرضوں میں ایک سو 8 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ خیال رہے کہ 30 جون تک گردشی قرضے 11 کھرب 96 ارب روپے تک ریکارڈ کیے گئے جس میں آزادانہ توانائی کے مراحل اور ایندھن کی فراہمی کے سلسلے میں 6 سو 13 ارب روپے شامل ہیں۔ رپورٹ میں مرکزی توانائی خریدنے کی کمپنی کی فنانسنگ میں سنجیدہ بے ضابطگیوں کا بھی انکشاف ہوا۔ اس کے ساتھ رپورٹ میں قیمتوں کا تعین کرنے والے 2 اداروں نیپرا اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کے کرادر پر بھی سوالات اٹھائے گئے ۔