پاکستان کے نامور کالم نگار سہیل وڑائچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔۔۔اسی لئے میں اسے کبھی بہنا، کبھی آپا اورکبھی باجی کہتا ہوں۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں بچپن ہی سے نکما، نالائق اورموٹے ذہن کا مالک ہوں اور مجھے یہ کہنے میںکوئی باک نہیں ہے کہ میری بہن نے روحانیت کا طویل سفر طے کیا ہے۔ وہ بچپن سے پچپن (موجودہ عمر) تک مسلسل چلے کاٹتی رہی ہے۔میں سست الوجود، کبھی اتنی محنت ہی نہیں کرسکا۔
آج میری بہن روحانیت کے اعلیٰ درجے تک پہنچ چکی ہےجبکہ میں روحانیت سےمکمل خالی ہوں اور درجات میں نیچے سے نیچے جارہا ہوں۔ میری بہنا کمالات کے عروج کو چھوچکی ہیں جبکہ میں ناہنجار کہتری کے بھی زوال کو پہنچ چکا ہوں۔ میری باجی، انسان تو انسان جانوروں کے دکھ بھی جان لیتی ہے۔ وہ بے زبان کتے اور بلیوں کی زبان سمجھتی ہے۔ ان کے بہتے ہوئے آنسوئوں اور ان کی خوشی اور غم کو محسوس کرسکتی ہے۔ ان کی بھوک اور پیاس کابھی اسے پتا چل جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ وہ گونگے پودوں اور درختوںکے احساسات بھی پڑھ لیتی ہے۔ درخت کو پانی کی ضرورت ہے یا پھر بارش نہ ہونے سے اسے سوکھنے کا ڈر ہے،یہ سب میری بہن کے احاطہ ٔ علم میں ہوتاہے۔ میں نے خود کئی درختوں کو اپنی بہن کو پانی مانگنے کے لئے آوازیں دیتے دیکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ میری بہن کو اس کی نیکیوں کا اجر مل چکا ہے اور یہ سب اسی کے مظاہر ہیں۔ میں دل کا بھی کالا ہوں اور مجھے پسند بھی کالا رنگ ہی ہے۔ خطا کار ہوں اور باقی خطاکاروں بداعمالوں کو بھی گلے لگا لیتا ہوں۔ میری بہن مگر اکملیت پسند (perfectonist)ہے اسے سفید رنگ اچھا لگتا ہے۔ اس کا کمرہ سفید چادروں اور سفید پردوں سے ڈھکا رہتا ہے۔ وہ خود بھی سفید لباس پہنتی ہے۔ کہتے ہیںکہ جنت کا رنگ بھی سفید اور سنہرا ہی ہے۔ مبارک پروین سفید لباس میں ملبوس جنت کی حور محسوس ہوتی ہے۔مجھے تو کبھی کبھی اس کے سر کے اوپر سے نور کا ہالااوپر کو جاتا ہوابھی محسوس ہوتا ہے۔ خدا جانے یہ میرا وہم ہے یا حقیقت؟میری بہن اپنے
روحانی درجے کے بارے میں کچھ نہیں بتاتی بلکہ اس کو چھپاتی ہے۔ کسی بداعمال کو روحانی کمال یا معجزے کی خبر مل جائے تو میری اوتار بہن فوراً اس کی تردید کردیتی ہے۔ وہ اپنی نیکی اور اپنی روحانیت کی تشہیر سےگریزاں رہتی ہے۔وہ نہیں چاہتی کہ خطاکاروں کا ہجوم میری بہن کی جنتی روح کو عبادت گزاری کے دوران پریشان کرے۔ میری بہن مبارک پروین جتنا اپنی روحانیت کو چھپاتی ہے، اپنے معجزوں کو دباتی ہے،
اتنی ہی اس کی شہرت بڑھتی ہے وہ تردید کرتی ہے جبکہ اس کے مریدین تصدیق۔ یوں میری بہن روحانیت کو خفیہ رکھنے کےباوجود مادی دنیا کے درجات بھی حاصل کرتی جارہی ہے جبکہ میں پاجی مادی دنیاکے لئے جدوجہد کرنے کے باوجود اس شعبے میں بھی مسلسل ناکامیوںکا منہ دیکھ رہا ہے۔اب غور کرتا ہوں تو یاد آتا ہے کہ مبارک پروین بچپن ہی سے سیانی تھی۔ اس میں کامن سینس بھی ہمیشہ سے زیادہ تھی۔ ہم دونوںبہن بھائی
خاندانی طور پر چشت اہل بہشت کے سلسلہ ٔ عالیہ سے منسلک ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ میں ان فیوض و برکات سے محروم ہوں جن سے میری بہن فیض یاب ہو رہی ہے۔ وہ جو کہتی ہے ،پورا ہو جاتا ہے۔ وہ جوچاہتی ہے ،لے لیتی ہے۔ وہ مستقبل کے بارے میں جوبھی سوچتی ہے وہ درست ہی نکلتا ہے۔ ایک طرف وہ دیوتا سمان روح ہے اور دوسری طرف میں بداعمال شخص۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جھوٹ بھی بولے تو لوگ اسے سچ سمجھتے ہیں
اور میں سوفیصد سچ بھی کہوں تو لوگ مجھے جھوٹا جانتے ہیں۔وہ یہاں رہے یا وہاں رہے مہارانیوں کی طرح رہتی ہے۔ میں جہاں بھی جائوں میرا حال نوکروں اور نوکرانیوں والا ہی ہوتاہے۔ ایسا شاید اس لئے بھی ہے کہ میں اسی مادی دنیا کا کل پرزہ ہوں جبکہ مبارک پروین روحانی دنیا کا استعارہ۔ میں انسانی خدمت کرتا ہوں لوگوں سے گھل مل کرباتیں کرتاہوں تو مجھے کہا جاتا ہے کہ یہ سیاست کرتا ہے۔ میری بہن بوڑھوں اور بوڑھیوں کے
حق میں بات کرے تو اسے روحانیت کہا جاتاہے۔ ہر طرف سے واہ واہ ہوتی ہے بس میری قسمت خراب اور میری بہن کی قسمت بہت ہی اچھی ہے…..تاریخی طور پر میری بہن اسکندریہ کی مصری ملکہ قلوپطرہ سے بہت مشابہت رکھتی ہے۔ قلوپطرہ کے پراسرار روحانی کمالات آج بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ قلوپطرہ اپنی عقل اور اپنی حکمت کاری سے سلطنت ِ عظمیٰ روما کے دوطاقتور ترین بادشاہوں جولیس سیزر اور انٹونی کو اپنی
انگلیوں پر نچاتی رہی۔ میری بہن مبارک پروین اقتدار کی بالکل متمنی نہیںہے وہ تو بس چاہتی ہے کہ جسے وہ چاہتی ہے اقتدار ملنے کے بعد اسے بام عروج بھی ملے۔ وہ سیزر، انٹونی اوراسکندر اعظم سے بھی بڑا آدمی بن جائے۔ میری بہن میں خوبیاںہی خوبیاں ہیں۔ اس قدر خوبیاں کہ مجھے وہ زمینی نہیں بلکہ آسمانی مخلوق لگتی ہے۔ شاید نظر بٹو کے طور پر ایک خامی ضروری ہے اس میں غصہ بہت ہے۔کہتے ہیں کہ کئی روحانی طاقت والے
لوگ جمالی ہوتی ہیں اور کئی جلالی۔ میری بہن جلالی ہے۔ جوانی کے زمانے میں تو وہ کئی نوکرانیوںکو خود اپنے ہاتھوں سے پیٹ چکی ہے۔ اب بھی اسے غصہ آئے تو وہ مجھ پر نکال دیتی ہے اور اگر میں نہ ہوں تو جو بھی سامنے ہو وہ اس کی زد میں آ جاتا ہے۔ اگر اسے کسی کی بات بری لگ جائے تو پھر اسے غصہ آ جاتا ہے اور کئی بار وہ دوسروں کو نیچا دکھانے کے لئے حدیں بھی عبور کرلیتی ہے۔ اس میں فرشتوں جیسی
خوبیاں ضرور ہیں لیکن آخر انسان ہے کچھ نہ کچھ خامیاں توہوتی ہوں گی۔ میری بہنا اس وقت دنیا میں سب سے اونچے مقام پر ہے۔ اسے صحافی اور اینکر بونے نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگوں کی باتوں کو رد کرنا، تردید کرنا، تذلیل کرنا اس کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ غلط کار لوگ اس کے عہد میں ذلیل ہوتے رہیں گے ان کی یہی قسمت ہے اور تماشائی تالیاں بجاتے رہیںگے۔میں چونکہ اپنی بہن کا ہم راز بھی ہوں اور اس کا ہم درد بھی،
اس لئے اکیلے میں اسے سمجھاتا رہتا ہوں کہ جو کچھ حاصل کرلیا ہے اسے بچانے کی کوشش کرو ۔ روحانی کمالات اوپر بھی لے جاتے ہیں اور اگر انسان میں بڑائی اور تکبر آ جائے تو اسے نیچے بھی گرا دیتے ہیں۔ میں یہ بھی کہتارہتاہوں کہ تمہاری خوبیاں ایک طرف، تمہارا غصہ، تمہارا دوسروں کو حقیر اور اپنے آپ کو پاکیزہ سمجھنا ایک دن تمہارے زوال کا باعث بنے گا۔