اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)روزنامہ جنگ میں کالم نگار مرزا اشتیاق بیگ اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ 13 جولائی کو جب نواز شریف کو اڈیالہ جیل لایا گیا تو انہیں جیل میں سی کلاس دی گئی، بیرک میں کوئی چارپائی اور نہ ہی کوئی گدا تھا جبکہ بیرک کے باہر باتھ روم انتہائی گندا تھا۔ بیرک میں ایک بہت پرانا پنکھا نصب تھا جو گرم ہوا پھینک رہا تھا۔ نواز شریف نے وضو کیا۔
قرآن مجید مانگا اور نماز پڑھنے کے بعد فرش پر لیٹ کر رات گزاری۔ وہ رات بھر پسینے میں شرابور رہے اور دوسرے دن جب شریف فیملی کے افراد ملاقات کیلئے آئے اور انہوں نے نواز شریف کی یہ حالت دیکھی تو یہ بات میڈیا پر لیک ہوئی تو نواز شریف کو بی کلاس میں منتقل کیا گیا جہاں انہیں ایک چارپائی کی سہولت حاصل تھی جبکہ کمرے سے منسلک ایک باتھ روم بھی تھا جو انتہائی بدبو دار تھا۔ نواز شریف کو کھانا جیل کا ملتا تھا مگر وہ جیل کا پانی نہیں پیتے تھے جس کے باعث انہیں گردے کا مرض لاحق ہوگیا اور ان کی طبیعت تشویشناک حد تک بگڑگئی ۔ڈاکٹروں کے مطابق گردے کسی وقت بھی فیل ہوسکتے تھے، اسپیشلسٹ نے میاں نواز شریف کو اسپتال منتقل کرنے کا مشورہ دیا مگر جیل حکام نے ہدایت پر عمل کرنے سے انکار کردیا۔ الیکشن کے بعد میاں نواز شریف کی طبیعت مزید بگڑتی چلی گئی، یہاں تک انہیں ہارٹ اٹیک ہوا اور ڈاکٹرز نے انہیں اسپتال منتقل کرنے کی ہدایت کی مگر نواز شریف نے اسپتال شفٹ ہونے سے صاف انکار کردیا۔ بعد ازاں مریم نواز اور صفدر کے اصرار پر نواز شریف کو پمزاسپتال کے سی سی یو میں منتقل کیا گیا۔ کچھ روز بعد جب نواز شریف کی حالت بہتر ہوئی تو وہ اس بات پر بضد رہے کہ وہ اسپتال میں نہیں رہنا چاہتے اور انہیں جیل منتقل کیا جائے۔ اس طرح میاں نواز شریف کو دوبارہ جیل پہنچا دیا گیا۔