کراچی (آئی این پی )چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے شرجیل میمن کے اسپتال کے کمرے سے مبینہ شراب کی بوتلوں کی برآمدگی پر ضیا الدین اسپتال کی ایک ماہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھ کر مکمل تحقیقات کا حکم دے دیا۔پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما شرجیل میمن کے کمرے سے شراب کی بوتلیں برآمد ہونے کے معاملے پر سپریم کورٹ نے مکمل تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔شرجیل میمن سے کون ملا، کون آیا، کون گیا؟؟
چیف جسٹس نے شرجیل میمن کی ملاقاتیوں کی تفصیلات بھی پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے ضیا الدین اسپتال کی ایک ماہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے تحقیقات کا حکم دیا جب کہ ضیا الدین اسپتال کے متعلقہ ریکارڈ سے بھی تحقیقات کا حکم جاری کیا ہے۔چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری اور دیگر حکام کو مکمل آزادانہ تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ دوسری جانب چیف جسٹس کے دورے کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ہے جس کے مطابق صبح سویرے آئی جی جیل نے وی آئی پی قیدیوں کے اسپتال میں داخلے پر چیف جسٹس کو بریفنگ دی۔آئی جی جیل خانہ جات نے رپورٹ میں بتایا کہ شرجیل میمن ضیاؤ الدین اسپتال، انور مجید این آئی سی وی ڈی اور عبدالغنی مجید جناح اسپتال میں زیر علاج ہیں۔چیف جسٹس نے آئی جیل سے استفسار کیا کہ کیا واقعی یہ ملزمان ان ہی اسپتالوں میں ہیں؟ جس پر آئی جی جیل نے کہا کہ جی بالکل، یہ ملزمان ان ہی اسپتالوں میں ہیں، اس پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ گاڑی تیار کی جائے۔ چیف جسٹس نے ان اسپتالوں کا اچانک دورہ کیا اور صورتِ حال کا خود مشاہدہ کیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار ضیاؤ الدین اسپتال پہنچے تو شرجیل میمن لگژری کمرے میں سو رہے تھے اور کمرے کے باہر ملازم نے بتایا کہ شرجیل میمن کمرے میں سو رہے ہیں جب کہ ان کے کمرے کی لائٹ بھی بند تھی جس پر چیف جسٹس نے ملازمین کو لائٹیں آن کرنے اور شرجیل میمن کو اٹھانے کا حکم دیا۔شرجیل میمن کالے رنگ کی ٹی شرٹ اور ٹرازر میں بغیر لاٹھی کے سہارے باہر آئے جس پر چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ
‘شرجیل میمن، میں چیف جسٹس پاکستان، آپ کی خیریت معلوم کرنے آیا ہوں۔اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘یہ ہے آپ کی سب جیل، سب جیل اسے کہتے ہیں؟ یہ تو مکمل صحت مند لگ رہے ہیں لہذا ان کو یہاں سے فوری جیل منتقل کریں۔چیف جسٹس نے شراب کی بوتلیں دیکھنے کے بعد شرجیل میمن سے استفسار کیا کہ یہ کیا ہیں؟ جس پر شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ یہ میری نہیں۔دو بوتلیں ڈبے میں اور ایک ڈبے کے اوپر شراب کی خالی بوتل رکھی ہوئی تھی جس پر سپریم کورٹ کے عملے نے ایک بوتل سونگھ کر چیک کیا اور بتایا کہ اس میں سے شراب کی بو آرہی ہے۔
اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چیف سیکریٹری کو بلائیں اور دکھائیں یہ کیا ہو رہا ہے؟ چیف جسٹس نے عدالت واپس پہنچنے پر عدالتی عملے کو ضیا الدین اسپتال جانے اور کمرے کا ریکارڈ مرتب کرنے کی ہدایت کی۔ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کا عملہ ضیا ؤالدین اسپتال پہنچا تو ایس ایچ او غائب تھے جس پر عدالتی اسٹاف کو ایس ایچ او کا انتظار کرنا پڑا جب کہ اسپتال اسٹاف نے سپریم کورٹ عملے کو روکنے کی بھی کوشش کی لیکن سپریم کورٹ کا عملہ مزاحمت کرکے شرجیل میمن کے کمرے تک پہنچا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ عدالتی عملے کو شرجیل میمن کے کمرے کے باہر بھی روکا گیا جبکہ کمرے میں شرجیل میمن واش روم سے تولیا پہن کر باہر نکل رہے تھے۔
شرجیل میمن نے مکالمہ کیا کہ میں نے شراب نہیں پی ہے لہذا میڈیکل کرالیں تاہم ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے عملے کے پہنچنے تک کمرے کی چیزیں غائب کردی گئیں، شراب کی بوتلیں اور دیگر اشیا بھی غائب تھیں لیکن سپریم کورٹ عملے نے کمرے کی مکمل ویڈیو بنائی۔دریں اثناء شرجیل میمن کے کمرے سے شراب برآمد ہونے کے معاملے میں اصل ملزم کو مدعی بنا دیا گیا۔اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل کی مدعیت میں بوٹ بیسن تھانے میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اور یہ مقدمہ شرجیل میمن اور ان کے 2 ملازمین کے خلاف درج کیا گیا ہے۔مقدمے میں کمرے کا تذکرہ ہے مگر شرجیل انعام میمن کو براہ راست مقدمے میں نامزد نہیں کیا گیا۔شراب پینے یا برآمدگی کا ملبہ شرجیل انعام میمن کے ملازمین پر ڈال دیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں شرجیل انعام میمن اور جیل کے متعلقہ اہلکاروں اور افسران کو کلین چٹ مل گئی ہے جبکہ ایف آئی آر میں چیف جسٹس آف پاکستان کے دورے یا چھاپے کا تذکرہ تک نہیں کیا گیا۔مقدمہ کے اندراج کے لیے 11 گھنٹے تک تھانہ بوٹ بیسن کا روزنامچہ روکا گیا، ایف آئی آر کے تحت شراب برآمدگی کی ذمہ داری شرجیل انعام میمن پر عائد نہیں ہوتی۔