ہم اگر ملک کی دونوں پرانی پارٹیوں کا جائزہ لیں تو ہمیں محسوس ہوگا پاکستان پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری اور پاکستان مسلم لیگ ن کے لیڈر میاں نواز شریف کے غلط فیصلوں‘ غلط موقف اور خاندانی غلطیوں کی وجہ سے پارٹیوں کی ساکھ اور ووٹ بینک دونوں تباہ ہو گئے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کا ایک دوسرا المیہ سامنے آ رہا ہے‘ یہاں پارٹی کی غلطیاں‘ پارٹی کا بی ہیویئر‘ پارٹی کا تکبر اور پارٹی کی غیر سنجیدگی‘ قائد کی ساکھ اور قائد کے مینڈیٹ کو تباہ کر رہی ہے‘
آپ شیخ رشید کی حرکتیں ملاحظہ کریں‘ یہ پہلے ریلوے کے افسر سے لڑ پڑے‘ پھر یہ گلیوں میں موجود لوگوں سے الجھ پڑے‘ یہ آج فل پروٹوکول میں کراچی سٹی سٹیشن گئے اور وہاں عام پبلک کیلئے دروازے بند کر دیئے گئے‘ انہوں نے 22 اگستکو ایک بوڑھی خاتون کو دھکا دیا‘ ایک کیمرہ مین نے دھکے کی فوٹیج بنا لی‘ فرزند راولپنڈی نے اس کا موبائل دیوار پر مار کر توڑ دیا، آپ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری کی غیرسنجیدگی اور تکبر بھی ملاحظہ کیجئے، آپ فیصل جاوید کا غرور اور زبان بھی دیکھئے اور آپ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اطلاعات کے کارنامے دیکھئے‘ انہوں نے کل سماء ٹی وی کے سٹاف کو ماں بہن کی گالیاں دیں اور یہ اس کے بعد پبلک میں خواتین کے بارے میں کیا کیا فرما رہے ہیں، یہ کیا ہو رہا ہے‘ یہ ملکی تاریخ کی پہلی حکومت ہے جو بارہ دن میں میڈیا اور پبلک دونوں میں غیر مقبولیت کی انتہا کو چھو رہی ہے لیکن حکومت اپنی غلطیوں کو انڈرسٹینڈ کرنے کی بجائے‘ یہ اپنے تکبر‘ اپنی نان سیریس نیس اور اپنی بد زبانی پر توجہ دینے کی بجائے میڈیا کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے ایک ایجنڈے کے تحت انہیں غیر مقبول بنایا جا رہا ہے‘ میڈیا پر یہ الزام ماضی میں بھی حکومتیں لگاتی رہی ہیں لیکن یہ عموماً دو تین سال کے اقتدار کے بعد لگایا جاتا تھا‘ یہ پہلی حکومت ہے جسے دس دن میں میڈیا جانبدار دکھائی دے رہا ہے‘ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ حکومت کا میڈیا اور میڈیا کا حکومت سے رویہ کیسا ہے؟ کیسا ہونا چاہیے اور میڈیا کو حکومت کو مزید کتنا ہنی مون پیریڈ دینا چاہیے‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔