ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

قرآن پاک ، اسوہ حسنہ لازمی مضمون، نصاب میں شامل کرنے کیلئے بڑا قدم اٹھا لیا گیا

datetime 9  اگست‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(آئی این پی) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم نے قرآن پاک اور اسوہ حسنہ کو لازمی مضمون کے طور پر نصاب میں شامل کرنے کی سفارش کر دی، کمیٹی ارکان نے کہا کہ نصاب میںشامل قرآن پاک کی ایسی تشریح کرنی ہوگی جس پرتمام مکتبہ فکر کے علمامتفق ہوں،پاکستان کے اندر عدم برداشت کا کلچر تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے جس کو روکنا ہوگا،ایچ ای سی کی

جانب سے پی ایچ ڈی کے سکالرز کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان کے کام میں رکاوٹین ڈالی جاتی ہیں، ایک سکالر اپنا تحقیقاتی کام وقت پر جمع نہیں کرا سکا اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کو 6سال تک ذلیل کیا جائے،ایچای سی اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرنے میں مکمل طور پا ناکام رہا ہے۔جمعرات کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم کا اجلاس سینیٹر رانا مقبول احمد کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر نجمہ حمید، سینیٹر مولوی فیض محمد، سینیٹر مہر تاج روغانی، سینیٹر ہلال الرحمٰن، سینیٹر گل بشرہ ، سینیٹر شفیق ترین، سیکرٹری وفاقی تعلیم، ایگزیکٹو ڈائرکٹر ہائر ایجوکیشن کمیشن، چیئرمین این سی ایچ اے اور دیگر حکام نے شرکت کی۔ وقار زاہدنامیپی ایچ ڈی سکالر کو نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوجز کی جانب سے پی ایچ ڈی کی ڈگری نہ دیے جانے کے معاملے پر ایگزیکٹو ڈائرکٹر ہائر ایجوکیشن کمیشن نے کمیٹی کو بتایا کہ طالب علم نے اپنا ریسرچ ورک ٹائم پر جمع نہیں کروایا جس وجہ سے ان کو پی ایچ ڈی کی ڈگری جاری نہیں کی گئی۔ اس پرسینیٹر رانا مقبول احمد نے کہا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے پی ایچ ڈی کے سکالرز کی کوئی حوصکہ افزائی نہیں کی جاتی الٹا قوانین کے نام پر ان کے کام میں رکاوٹین ڈالی جاتی ہیں جو کہ افسوسناک ہے۔اسی وجہ سے طالب علم اعلی ٰتعلیم حاصل کر کے امریکہ اور دوسرے ممالک میں چلے جاتے ہیں

جہاں ان کیلئے آسانیاں فراہم کی جاتی ہیں جس سے پاکستان کا بہت بڑا نقصان ہو رہا ہے۔اگر ایک سکالر اپنا تحقیقاتی کام وقت پر جمع نہیں کرا سکا اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کو 6سال تک ذلیل کیا جائے۔ساری دنیاکے تعلیمی اداروں کے اندر طلبا کو سہولیات فراہم کی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں ایسا تصور بھی نہیں کیا جاتا ۔اسی وجہ سے پاکستان دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔

درخواست گزار نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ اس نے سال 2010کے اندر اپنا تحقیقاتی مقالہ مکمل کر کے جامعہ اور ایچ ای سی کو آگاہ کر دیا تھا لیکن 6سال تک کسی نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا وائیوا کیلئے جس کیلئے انہیں 6سال انتظار کرنا پڑا۔ اس دوران ایچ ای سی اور جامعہ کو متعدد بار ایل میل اور خطوط لکھے گئے لیکن کسی نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ

میں نے اپنا ماسٹرزلندن کی یونیورسٹی سے آنرز کے ساتھ مکمل کیا تھا اور پاکستان واپس آیا تاکہ ملک کیلئے اپنی خدمات پیش کر سکوں لیکن کسی ین ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔انہوں نے وفاقی محتسب کے پاس بھی درخواست دائر کی ہے جس کا فیصلہ ان کے حق میں آیا ہے اور کمیٹی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری جاری کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔اس موقع پر کمیٹی ارکان نے کہا کہ ایچ ای سی اپنا

کام پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آ رہا ہے۔وفاقی محتسب کے فیصلے کے بعد کمیٹی کو بھی یہی لگتا ہے کہ سکالر کو پی ایچ ڈی کی ڈگری جاری کرنا چاہیے۔پاکستان کے اندر نصاب میںنظرثانی کے معاملے پر ایچ ای سی نمائندے نے کمیٹی کو بتایا کہ ایک کمیٹی ہر تین سال بعد نصاب میں نظر ثانی کرتی ہے اور ضروری سفارشات ایچ ای سی کو دیتی ہے جس کے بعد نصاب تبدیل کرنے

یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اس سال بعض وجوہات کی بنا پر ایک سال کی تاخیر کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔درخواست گزار نے سینیٹ کو دی درخواست میں بھی نصاب میں نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ نصاب کے اندر پبلک ایڈمنسٹریشن، گڈ گورننس، اور بنیادی حقوق کے مضامین شامل کیے جائیں۔ایچ ای سی پہلے ہی پبلک ایڈمنسٹریشن ا مضمون نصاب میں شامل کرنے کا

ارادہ رکھتی ہے کیونکہ یہ مضمون پڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس موقع پر کمیٹی اراکین نے کہا کہ نصاب میں نظر ثانی کرنا ٹھیک ہے لیکن اس کے ساتھ قرآن پاک اور اسوہ حسنہ کو بھی لازمی مضمون کے طور پر نصاب میں شامل کرنے کیلئے اقدامات کیے جائیں۔کمیٹی چیئرمین سینیٹررانا مقبول احمد نے کہا کہ قرآن پاک اور اسوہ حسنہ کو بھی لازمی مضمون کے طور پر نصاب

میں شامل کرنے کا مطالبہ درست ہے لیکن اس حوالے سے قرآن کی تشریح اور دیگر چیزوں کو بھی زیر غور لانا ہوگا کہ تمام مکتبہ فکر کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہو۔اس معاملے پر سینیٹر مولوس فیض محمد کمیٹی کی بہتر طور پر رہنمائی کر سکیں گے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ بہترین اخلاقیاتمیں پر پاکستان پوری دنیا میں سب سے آگے ہے اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو نیسکو نے اس حوالے

سے اخلاقیات پر نمایاں کام کرنے پر ایک پاکستانی کو ایوارڈ بھی دیا گیا ہے۔ اس پر سینیٹر رانا مقبول احمد نے کہا کہ اخلاقیات پر دنیا میں ایوارڈ لینا تو اچھی بات ہے لیکن پاکستان کے اندر بھی ہمیں اپنی اخلاقیات کو بہتر کرنا ہوگا ۔ پاکستان کے اندر اخلاقیات کے اعلیٰ معیار کا مظاہرہ کم کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ پاکستان کے اندر عدم برداشت کا کلچر تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے جس کو روکنا ہوگا اور اپنی نوجوان نسل کو صبر و تحمل سکھانا ہو گا جس کیلئے سیاستدانوں کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا کہ وہ اخلاقیات کے اعلیٰ معیار قائم کریں جس کو ہماری نوجوان نسل اپنائے ۔

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…