اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی آصف علی بھٹی اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ایک حکایت بیان کی جاتی ہےکہ ایک بادشاہ اپنی رعایا کے حالات جاننےکی غرض سے محل سے نکلا، کچھ دور جاکر قافلے سے الگ ہوگیا، ایک جنگل کی طرف چل رہا تھا کہ لمبے رستے کے بعد ایک باغ نظر آیا خوبصورتی بھا گئی، قریب پہنچا تو دیکھا کہ ہرطرف خوشنما اور تروتازہ اناروں سے لدے درخت ہیں
اور دل فریب خوشبو چہار سو پھیلی ہے۔ اچانک ایک شخص نظر آیا جو باغ کی رکھوالی میں مصروف تھا۔ بادشاہ گویا ہوا، کیا تو یہاں ملازم ہے، تو شخص بولا وہ باغ کا مالک ہے اور دیکھ بھال بھی خود کرتا ہے۔ بادشاہ طویل مسافت کے باعث ایسے حلیے میں تھا کہ پہچاننا مشکل۔ والئی باغ بولا، بندہ مسافر بتا تیری کیا خدمت کروں؟ ظل الٰہی تعارف کرائے بغیر بولے، پیاسا ہوں کچھ پینے کو ملے گا؟ اس شخص نے سنا اور چند لمحوں میں انار کے جوس کا گلاس لاکر بادشاہ کو پیش کردیا۔ بادشاہ کو انار کا جوس بہت پسند آیا، کہا اگر ہوسکے تو ایک گلاس اور پلا دیں۔ وہ شخص مہمان کی خواہش پر فوراً مڑا اور مزید جوس لینے روانہ ہوگیا۔ اسی دوران بادشاہ کے دل میں خیال گزرا کہ اسے اتنےبڑے اور خوبصورت باغ کا تو علم ہی نہیں تھا جو دراصل اس کی سلطنت کا حصہ ہے۔ دل میں لالچ آیا اور نیت بنائی کہ کیوں نہ اس کو اپنے قبضے میں لے لیا جائے، وہ دیر تک اسی منصوبہ سازی میں لگا تھا کہ باغ کا مالک جوس کا ایک اور گلاس لے کر پہنچا اور پیش کردیا، بادشاہ جھٹ سے بولا، پہلا گلاس فوراً لے آئے لیکن دوسری مرتبہ بہت دیر لگادی؟ میزبان بولا….. آپ ٹھیک فرماتے ہیں۔ تاخیر ہوئی لیکن سچ یہ ہےکہ ہم نےبڑوں سےسن رکھا ہے کہ ہمارے ملک کا بادشاہ جب بھی کسی معاملے پر بدنیتی کرے گا تو ہمارے ہاں بے برکتی ہوگی اور اس کا اثر ہمارے مال و اسباب پر بھی ہوگا
اور ہماری بدحالی کا دور شروع ہوجائے گا۔ دراصل پہلی بار ایک انار نچوڑا تو گلاس بھر گیا اور چند لمحوں میں آپ کو پیش کردیا، جبکہ دوسری مرتبہ تین اناروں سےبمشکل ایک گلاس بھرا۔ یقیناً ہمارے بادشاہ سے کچھ ایسا ضرور ہوا جس نے میرے مال کی برکت کو کم کردیا۔ بادشاہ سلامت نے جلدی جلدی جوس پیا، مزید کچھ کہے بغیر فوراً محل کو روانہ ہوگیا۔ تاریخ ایسے واقعات،
روایات اور حکایات سے بھری پڑی ہے لیکن موجودہ دور کے بادشاہ ان سے سبق سیکھنا تو درکنار وہی عمل کرتے ہیں جس سے عوام کا زیادہ سے زیادہ نقصان ہو۔وطن عزیز میں مسلسل تیسری عوامی و جمہوری حکومت بنانے کے لئے 25جولائی کو عام انتخابات ہوئے۔ سیاسی روایت کے مطابق ہارنے والے دھاندلی کے متروک الزامات نئے انداز میں لگانے میں مصروف ہیں
تو جیتنے والے جیسے تیسے تخت سجانے میں مشغول ہیں۔ پولنگ کے عمل پر تو کسی نے انگلی نہ اٹھائی البتہ نتائج آنے شروع ہوئے وہ بھی سسٹم کی خرابی کے باعث تاخیر سے، تو ہارنے والوں نے ایکا کرکے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ مقصد عوام کا مفاد نہیں اپنی شکست کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ ایسا واویلا پچھلی مرتبہ بھی ہو اور جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے باوجود پانچ سال تک رہا۔
ماضی سے ہدایت لیتے ہوئے اب کی بار تمام جماعتوں سے ’’تن تنہا‘‘ دو دہائیوں تک سیاسی لڑائی لڑنے والے اور اقتدار کی تگ دو میں پہلی بار ’’عوامی اکثریت‘‘ پانے والے کو بھاری دل سے ہی تسلیم کر لیا جاتا۔ اک مدت سے اقتدار کے مزے لینے والے خود کو مزید ایکسپوز کرنے کی بجائے جمہور کی بہتری کےلئےمل کر راہ تلاش کرنےپرمتفق ہوجاتے۔لیکن ایسا کیونکر ہوتا، شکست تسلیم کرنا جیت کی خوشی کو برداشت کرنے سے بڑا امتحان ہوتا ہے، جی ہاں نئے پاکستان میں ابھی روایات پرانی ہی چل رہی ہیں۔
پاکستان کے لئے کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والا کپتان سیاسی جیت پر سرشار اور پرعزم ہے کہ وہ نیا پاکستان ضرور بنائے گا۔ ایک حالیہ گفت گو میں خان صاحب نے بتایا کہ اندرون و بیرون ملک پڑھے لکھے قابل اور مخیر ہم وطنوں سے مدد لینے کا فیصلہ کرلیا ہے، وہ ہمیشہ سے کہتے رہے ہیں کہ بھیک نہیں مانگیں گے لہٰذا اب اقتدار میں آکر اپنے وسائل پر انحصار ان کی پہلی ترجیح ہے۔
زمینی حقائق دیکھیں تو وطن عزیز کو درپیش مسائل اور چیلنجز ایسے ہیں کہ جیسے آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ڈکٹیٹرشپ میں جوابدہی نہیں ہوتی لیکن جمہوریت کا فخر اقتدار کی کرسی کا امتحان ہے کیونکہ جمہوریت میں عوام اپنی مشکلات اور مسائل کے مداوے کے لئے ہی تو اپنے ووٹ سے اقتدار بخشتےہیں۔2018 کے انتخابی نتائج میں نوجوان ووٹرز نے بنیادی کردار ادا کیا ہے،
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 20کروڑ آبادی میں60 فی صد سے زائد آبادی نوجوانوں پرمشتمل ہے ان میں 25فیصد 15سے30 سال کی عمر کے ہیں۔ 10کروڑ سے زائد اہل ووٹرز میں سے انتخابی عمل میں ساڑھے پانچ کروڑ نے حصہ لیا، ان میں نصف کےقریب نوجوان ووٹرز نے ووٹ ڈالا جن میں آدھی اکثریت لڑکیوں، خواتین کی ہے۔ ایک اندازے کےمطابق ہرسال 40 سے50 لاکھ نئے ووٹرز رجسٹرڈ ہورہے ہیں
اور یہ سلسلہ جاری رہا تو آئندہ آنے والے ہر الیکشن میں اب یہی نوجوان طبقہ ملکی طرز سیاست کا رخ موڑ دے گا۔کہا جاتا ہے کہ اقتدار کانٹوں کی سیج ہے یقیناً مرکز میں اقتدار ملنا خان صاحب کے لئے بہت کڑا امتحان ہے۔ یہ ایسا امتحان ہےکہ جس میں اگر وہ25 سے30 فی صد بھی کامیاب ہوگئے تو پاکستان کی سیاسی تاریخ بدل جائے گی اور روایتی سیاست مکمل دفن ہوجائے گی اور مسٹرخان امر ہوجائے گا
لیکن اگر خدانخواستہ وہ ناکام ہوئے تو یہی ووٹوں سے دھتکارے ہوئے روایتی سیاستدان، الیکٹبلز اور مفاد پرست ٹولہ اس ملک پر پورے زور سے چنگھاڑتے ہوئے دوبارہ حملہ آور ہوگا اور تبدیلی کی بازی پلٹ کر مسلط ہوجائے گا۔بلاشبہ خان صاحب کو اپنی پارٹی کے اندر بھی ہوس اور تخریبی سیاست کا سامنا ہے لیکن وہ ہر لالچی کو نوازنے کی بجائے اپنے سخت گیر رویے سے اس پر قابو پاسکتے ہیں
اور پہلے مرحلےمیں پارٹی کےاندر نظم و ضبط اور خود احتسابی کا نظام بناسکتے ہیں۔ اقتدار کے پہلے دن سے انہیں معاشی، اقتصادی، داخلی اور خارجی معاملات سمیت ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا، بہتر ہوگا کہ وہ سادہ اکثریت کے باوجود پارلیمنٹ کو اپنی طاقت بنائیں، اپنے ارکان کی ایوان میں حاضری یعنی کورم پورا رکھنے کے لئے پہلے
اپنی حاضری یقینی بنائیں، تمام معاملات پر سچ بولتے ہوئے سیاسی اتحادیوں اور مخالفین کو اعتماد میں لیں، قانون سازی اور مشترکہ پالیسیاں بنانے کے لئے اپوزیشن کو اپنی طاقت بنانے کی نئی حکمت عملی سامنے لائیں۔ میڈیا کی آواز دبانے کی بجائے اس کو آزاد کرکے ہم آواز بنائیں۔ ون ڈے کرکٹ کےا ٓل رائونڈر اور چیمپئن بننے کا تجربہ سیاست میں بھی کام تو آیا ہے اب ضرورت اس امر کی ہے
کہ سیاسی میدان میں شاندار بائولنگ سے مخالف ٹیم کی اہم وکٹیں اکھاڑ پھینکنے کے بعد اب ذمہ دارانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کریں، کسی غلط فہمی میں نہ رہے گا کیونکہ یہ اقتدار کی کرسی کا امتحان ہے۔ بادشاہ سلامت نے کسی بھی معاملے پر ذرا بھی کوتاہی یا بدنیتی کی تو اس کا اثر نہ صرف رعایا پر ہوگا بلکہ انہیں اپنے سربراہ ریاست کے اعمال کا بھی فوری پتہ چل جائے گا۔