اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان کے سینئر صحافی اور روزنامہ جنگ سے ریٹائر ہونیوالے گروپ ایڈیٹر محمود شام اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ جناب عمران خان آپ نے کبھی تدبر کیا کہ آپ کو کس قطار میں مقام ملا ہے۔ کس کہکشاں میں شامل ہونے والے ہیں۔ شہید ملّت لیاقت علی خان ، خواجہ ناظم الدین، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، فیروز خان نون۔ ذوالفقار علی بھٹو۔
آپ نے پتہ نہیں ان شخصیتوں کا ان کے ادوار کا مطالعہ کیا ہے یا نہیں۔ کتنی قربانیاں تھیں ان کی۔کیسی کیسی مشکلات کا سامنا تھا۔ ان میں سے ہر ایک کا کتنا مطالعہ تھا کتنا مشاہدہ۔ اب تک تو آپ دُنیا کو شاہ محمود قریشی۔ جہانگیر ترین۔ نعیم الحق۔ فواد چوہدری۔ شیریں مزاری۔ شفقت محمود اور عارف علوی کی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔ آپ کو صرف پارٹی چلانی تھی۔ اب یہ عظیم ملک چلانا ہے۔ برسوں سے اپنی تجوریاں بھرنے والوں کے ستم کے شکار 20کروڑ انسانوں کی قسمت کے فیصلے کرنے ہیں۔ملک صرف سیاستدانوں کا، ارکانِ پارلیمنٹ کا نہیں ہے۔ یہ سب ملاکر پاکستان کا صرف ایک فیصد بنتے ہوں گے۔ 99فی صد کی بھی سنئے۔یہ جو سوال ہورہے ہیں کہ پرانے جاگیرداروں کے ساتھ نیا پاکستان کیسے بنے گا۔ انہیں بتائیں کہ انتخاب ہوا ہے۔ انقلاب نہیں آیا۔ انقلاب آتا تو ایسے سوال کرنے والے۔ بلا وجہ تکرار کرنے والے انقلاب کی خوراک بن چکے ہوتے۔ اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کا بہت ذکر ہورہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ تو جس کا ساتھ دیتی ہے اسے دو تہائی اکثریت دلواتی رہی ہے۔ رات گئے بیس بیس ہزار ووٹ کااضافہ کرتی رہی ہے۔ اگر اس بار الیکشن کا اس نے ہی اہتمام کیا ہے تو دو تہائی کیوں نہیں دلوائی۔ ایک ایک رکن کے لئے ہوائی جہاز اوبر اور کریم کی طرح کیوں اُڑ رہے ہیں۔یہ تو سب کچھ ہونا ہے۔ ہوتا رہے گا۔ ظاہری آنکھ رکھنے والے اسی میں اُلجھے رہیں گے۔
آپ کے بارے میں گوادر سے واہگے تک یہ تاثر بھی ہے امید بھی کہ آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔پاکستان کو ترقی کا۔ امن کا۔ غربت کے خاتمے کا ورلڈ کپ دلوانا چاہتے ہیں۔ وہ بہت محبت سے بنی گالا کی طرف نظریں لگائے ہوئے ہیں۔ آپ نے یقیناً کچھ طویل المیعاد اور فوری اقدامات کی حکمتِ عملی تشکیل دی ہوگی۔2018سے 2023 ایک مشکل اور حساس عرصہ ہے۔
ہمارے پڑوس میں ان پانچ سال میں بہت کچھ ہونے والا ہے۔ یہ پارلیمنٹ یہ پارلیمنٹرین اس کا ادراک نہیں رکھتے۔ یہ سب وہی ہیں جو گزشتہ برسوں سے کبھی تیر۔ کبھی شیر۔ کبھی بلّے کبھی کتاب کے نشا نوں سے آتے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ اور بیورو کریسی دونوں زنگ آلودہ ہیں۔ انہیں پاکستان کو آگے لے جانے سے دلچسپی نہیں رہی۔ میگا پروجیکٹس میں کمیشن سامنے رہا ۔ بیورو کریٹس میں اپنے
بچوں کو باہر کے ملکوں میںپڑھانے ،پھر وہیں آباد ہوجانے کی روایت رہی ہے۔ بے شُمار ریٹائرڈ سیکریٹری۔ سفارت کار امریکہ ۔کینیڈا۔برطانیہ میں آرام کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بیورو کریٹس نسل در نسل اسی طرح وفاداریاں تبدیل کررہے ہیں۔ آپ کو نئے عزائم کی تکمیل کے لئے مضبوط دست و بازو، اور زرخیز ذہن تلاش کرنے ہوں گے۔اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ آپ خود اپنا ذہنی اُفق وسیع کریں۔
دردمند پاکستانیوں کے مشوروں اور تجاویز سے اپنی پالیسیاں ترتیب دیں۔ وزراء اور بیورو کریسی سے صرف اس پر عمل کروائیں۔ ہر صوبے میں ہر شہر میں ایسے فکر مند پاکستانی موجود ہیں جن کی آنکھوں میں خواب بھی ہیں۔ دماغوں میں تعبیر بھی ہے۔دل میں پاکستان سے عشق بھی ہے۔ انہیں کوئی عہدہ چاہئے نہ کرسی۔ نہ دولت۔ صرف آگے بڑھتا پاکستان چاہئے۔ آپ وقت نکالیں۔ تاجروں۔
صنعت کاروں۔ ماہرین تعلیم۔ماہرین معیشت۔ ماہرین توانائی۔ سائنسدانوں اساتذہ پروفیسرز۔ علما،اسکالرز سے گروپوں کی شکل میں ملیں۔ شہر شہر خود جائیں۔ گورنر ہائوسوں میں ان کو بلائیں۔ شرط یہ ہوگی کہ ان کی ٹھوس تجاویز سنیں۔ اپنی رائے نہ ٹھونسیں۔ اپنے آپ کو عقل کُل نہ سمجھیں۔ آپ کو حکومتی انتظام کا تجربہ نہیں ہے۔ کرکٹ ٹیم کی قیادت اور 20کروڑ انسانوں کی۔دُنیا کے سب سے
مشکل ملک کی قیادت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو برسوں سے ان امور پر توجہ مرکوز کئےہوئے ہیں۔ تحقیق کررہے ہیں۔ ان کا کسی پارٹی سے تعلق نہیں ہے۔ کسی فرقے سے وابستگی نہیں ہے۔ ان کی پارٹی بھی پاکستان ۔ ان کا فرقہ بھی پاکستان۔ یہ آپ کے سیاسی ساتھیوں۔ وزرا، ارکان پارلیمنٹ کی طرح آپ کی خوشنودی یا ناراضی کو سامنے نہیں رکھیں گے۔اپنے دل کی بات کریں گے۔
آپ کے ذہن میں نئے دریچے کھلیں گے اور عوام میں یہ احساس ہوگا کہ ہمیں فیصلہ سازی میں شریک کیا جارہا ہے۔یہ ابھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ اپنے پرنسپل سیکریٹری کے قیدی بنتے چلے جائیں گے۔ انٹیلی جنس بیورو آپ کو بہت سے خطرات کا اشارہ دے کردفتر تک محدود کرتا رہے گا۔ ملٹری سیکریٹری۔ اے ڈی سی بھی آپ کے گرد حصار باندھتے جائیں گے۔
اصولاً وزیرا عظم کا ملٹری سیکریٹری اور اے ڈی سی نہیں ہوتا نہ ہونا چاہئے۔یہ پاکستان میں روایت اس لئے پڑی کہ بھٹو صاحب صدر سے وزیر اعظم بنے تو یہ دونوں حصار ورثے میں لے آئے۔ آپ ہمّت کریں تو سویلین اتھارٹی کو اس وردی سے آزاد کریں۔پاکستان بھر میں تھڑوں۔ چوپالوں۔ ڈرائنگ روموں ۔ مارکیٹوں۔ بازاروں ۔ یونیورسٹیوں اور کلبوں میں بڑی دردمندانہ باتیں ہورہی ہیں۔
یہ سب ہمارے تھنک ٹینک ہیں۔ کالجوں اور دینی مدارس میں طلبہ طالبات اساتذہ بھی پاکستان کی ترقی کے لئے بہت کچھ سوچتے ہیں۔ اگرآپ ایک ہفتہ مخصوص کردیں ان سب سے اپیل کریں کہ وہ آپ کا ہاتھ بٹانے کے لئے اپنی تجاویز تحریری طور پر ارسال کریں ۔ ٹیکنالوجی کا دَورہے۔ وٹس ایپ ہے ای میل ہے ایس ایم ایس۔ اس کے لئے وزیر اعظم ہائوس میں سافٹ ویئر بنائیں۔
ہفتے میں ایک روز آن لائن بھی آئیں۔ غریب پاکستانیوں سے فون پر باتیں کریں۔ بزرگوں مائوں بہنوں بھائیوں کی دعائیں لیں۔ایک گزارش یہ ہوگی کہ حاجی غلام احمد بلور نے جس پختہ ذہنی کا مظاہرہ کیا ہے۔ آپ ان سے خود رابطہ کرکے شکریہ ادا کریں۔ اور اپنی کسی چھوڑی جانے والی سیٹ پر انہیں الیکشن کی پیشکش کریں۔ اسی طرح اصول پرست۔ محب وطن شخصیات جو حالات سے بیزار
ہوکر گھر بیٹھ گئی ہیں انہیں بھی حرکت میں لائیں۔سمندر پار پاکستانیوں میں بھی بہت درد مند موجود ہیں۔ ان کو بھی پاکستان بلائیں ان سے بھی تجاویز لیں۔ پاکستان آگے ان ماہرین کی مدد سے ہی بڑھ سکتا ہے۔ارکان پارلیمنٹ رسمی جمہوریت کے لئے ضروری ہیں۔ پاکستان اگر ان کے ذریعے ترقی کرسکتا تو آج پاکستان کا یہ حال نہ ہوتا۔جو بھی کرنا ہے۔ پہلے تین سال میں کرکے پھر نئے انتخابات کی طرف جائیں۔ دو تہائی اکثریت حاصل کرکے آئین میں ضروری ترامیم کریں۔