اسلام آباد (نیوز ڈیسک)معروف کالم نویس حامد میر نے اپنے کالم میں لکھا کہ شہباز شریف سے ملاقات کے اگلے ہی روز جو بارش ہوئی اسے دیکھ کر میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ مسلم لیگ(ن) کے لئے اصل خطرہ ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ نہیں بلکہ وہ بدانتظامی ہے جو بارش کے بعد سامنے آئی۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ عمران خان نے اس بدانتظامی پر بھرپور تنقید کی ہے۔ گزشتہ دنوں بنی گالہ میں عمران خان سے ملاقات ہوئی تو پہلی دفعہ وہ مجھے اپنی پارٹی کی اندرونی گروپ بندی سے کافی پریشان نظر آئے۔
عمران خان’’جیپ‘‘ پر سوار آزاد امیدواروں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مجھے واضح طور پر کہا کہ یہ آزاد لوگ پورے سسٹم کو اپنا غلام بنا لیں گے۔ عمران خان سے گفتگو کے بعد میں نے ان کے ایک قریبی ساتھی سے کہا کہ مجھے الیکشن کے بعد سیاسی استحکام نظر نہیں آتا کیونکہ جن لوگوں کو عمران خان کا مدد گار سمجھا جارہا ہے عمران خان ان کا حسن انتخاب نہیں بلکہ مجبوری ہیں۔ دوسرے الفاظ میں نواز شریف اور آصف زرداری کے مقابلے پر عمران خان ایک چھوٹی برائی ہیں۔ اس چھوٹی برائی کو نواز شریف اور آصف زرداری کیسامنے کھڑا تو کردیا گیا ہے لیکن اس پر اعتماد نہیں کیا جارہا اور اسے قابو کرنے کے لئے جیپ سواروں کا ایک قافلہ تیار کرلیا گیا ہے۔ ان جیپ سواروں کے بارے میں آصف علی زرداری کے پاس بہت مزے مزے کے قصے ہیں۔ وہ کچھ دن سے لاہور میں بیٹھ کر جیپ سواروں کے ساتھ اگلے سیاسی معرکے کی تیاری کررہے ہیں۔ آصف زرداری کا خیال ہے کہ اگر وہ انتخابات کے التواء کا مطالبہ کردیتے تو ان کے ساتھیوں کو گرفتار کیا جاتا نہ بلاول پر لیاری میں پتھراؤ ہوتا۔ انہوں نے لاہور میں ہنستے ہوئے مجھے بتایا کہ کس طرح ان کے ایک امیدوار کو زبردستی جی ڈی اے میں بھیجا گیا اور پھر کس طرح وہ اسے چھین کر واپس لائے اور یہیں سے وہ سرد جنگ شروع ہوئی جس کی جھلکی بلاول پر پتھراؤ کی صورت میں نظر آئی لیکن پتھراؤ نے پیپلز پارٹی کو نقصان کی بجائے فائدہ پہنچایا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر اختر مینگل نے مجھے بتایا کہ ان کے ساتھیوں کو خضدار میں کھلم کھلا دھمکیوں کے ذریعہ ایک نئی جماعت میں شامل کرایا جارہا ہے لیکن ایک سیاستدان ایسا بھی ہے جس نے مجھے دبا ؤ کا کوئی قصہ نہیں سنایا بلکہ ان کے لب و لہجے میں مجھے ایک خوشگوار تبدیلی محسوس ہوئی۔ یہ تھے محترم مولانا فضل الرحمن صاحب جو ایم ایم اے کے ایک اجلاس میں شرکت کیلئے اسلام آباد آئے تو ان سے بھی کچھ باتیں ہوگئیں۔ مولانا صاحب کو یقین ہے کہ عمران خان وزیر اعظم نہیں بن سکیں گے۔
وہ جیپ سواروں کے بارے میں شہباز شریف اور آصف زرداری والا لب و لہجہ بھی استعمال نہیں کررہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ انہوں نے عمران خان کے مدد گاروں کی صفوں میں کوئی نقب لگا لی ہے اور خاموشی سے کسی سرپرائز کی تیاری کررہے ہیں۔ سچی بات ہے مجھے خوشی ہوئی کہ مولانا صاحب نے کسی سے لڑائی جھگڑے کے بجائے خود کو واقعی ایک مقناطیس بنالیا ہے جو کسی اور طرف نہیں جارہا بلکہ سب کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ مولانا کے بارے میں کچھ لوگ بڑی بڑی باتیں کررہے ہیں لیکن مولانا صاحب بڑا بول نہیں بول رہے۔
بڑا بول غرور کی نشانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو غرور پسند نہیں۔ طاقت کا گھمنڈ بھی اچھی چیز نہیں۔ یہ خاکسار پچھلے دنوں جن سیاستدانوں کو ملا وہ بیبس نظر آئے۔ جن کے ہاتھوں یہ سیاستدان بیبس ہیں انہیں بھی اپنی طاقت پر گھمنڈ نہیں کرنا چاہئے۔ اصغر خان کیس میں سب کے لئے سبق ہے۔ اس کیس میں اسلم بیگ، اسد درانی، نواز شریف اور دیگر کو سزا ہو یا نہ ہو لیکن اس کیس نے ان سب کو تاریخ کے ایک موڑ پر ایک مقام دے دیا ہے۔ آج پاکستان میں جو ہورہا ہے اس کا پول بیس سال بعد نہیں کھلے گا بلکہ 25جولائی 2018کو کھل جائے گا۔ ایک بارش نے شہباز شریف کی بدانتظامی کا پول کھول دیا اگر ایسی ہی بدانتظامی اورکمزور انجینئرنگ 25جولائی کو ہوئی تو وہ ہاہاکار مچے گی جو کسی کے روکنے سے بھی نہ رکے گی۔