اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)یونیورسٹی آف پشاورکے قوانین کی کھلے عام خلاف ورزی ، تحریک انصاف کے سابق ممبر قومی اسمبلی مراد سعید کوفائنل امتحان پاس کئے بغیربی ایس آنرز کی ڈگری جاری،غیر قانونی طورپر دی گئی اس ڈگری سے متعلق یہ انکشاف بھی سامنے آیا ہے کہ مراد سعید نے .صرف آدھ گھنٹے کے دوران 3امتحانات دئیے اور پا س قرار پائے۔یونیورسٹی کے وائس چانسر ڈاکٹر محمد آصف خان نے تمام متعلقہ اتھارٹیز اور طاقتور سینڈیکیٹ کو نظر انداز کیا۔
گرمیوں کی چھٹیوں کے دورا ن ہی ڈگری جاری کردی ۔نجی ٹی وی نے اس ڈگری کی کاپی بھی حاصل کرلی۔اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یونیورسٹی کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ یونیورسٹی آف پشاور کے موجود ہ وائس چانسلر کو تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا حکومت نے لگایا تھا۔جس نے مراد سعید کو ڈگری جاری کردی۔انہوں نے کہا کہ یہ یونیورسٹی ایکٹ اور بی ایس ریگولیشن 2010کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔مراد سعید کیلئے الگ پیپرز تیارکروائے گئے جو کہ غیر قانونی ہے ،اس منفرد کیس نے یونیورسٹی کے تمام قوانین کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔شعبہ ماحولیاتی سائنسز نے مراد سعید کو نوازنے کیلئے3 پیپرز تیار کروائے اور صرف آدھے گھنٹے میں اسے حل کروادیااوراسی تاریخ کو نتیجہ بھی جاری کردیا۔واضح رہے کہ مراد سعید2013کے الیکشن میں سوات سے ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے ۔ 2005سے 2009کے دوران یونیورسٹی آف پشاور سے بی ایس آنرزکے طالبعلم رہے اور اس دوران انہوں نے فائنل امتحان پاس نہیں کیا تھا۔قانونی ماہرین نے اس سلسلے میں پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔جس پر یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی ہوش آیا اور معاملے کا نوٹس لیا۔ہائیکورٹ میں دائر پٹیشن کے مطابق 2005سے 2009کے دوران مراد سعید کو انڈر گریجوایٹ پڑھائی کے دوران تمام کورسوں میں پاس کردیاگیا۔
یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر رسول جان نے اس سلسلے میں ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی بنائی جو اس نتیجے پر پہنچی کہ قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مراد سعید کو جلد بازی میں ڈگری جاری کی گئی جسے منسوخ کیا جائے۔3مارچ 2018کو پشاور ہائیکورٹ نے اس معاملے کو یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کمیٹی کو بھجوایا۔کمیٹی ہیڈڈاکٹر بشیر احمد سے جب رابطے کی کوشش کی گئی توانہوں نے کہا کہ وہ ڈگری والے معاملے سے لاعلم ہیں ۔شعبہ ماحولیاتی سائنسز کے چیئرمین ڈاکٹر حزب اللہ نے کہا کہ کیس کہاں تک پہنچا ہے وہ نہیں جانتے۔یونیورسٹی آف پشاور کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد آصف خان اور رجسٹرار ڈاکٹر زاہد گل سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے کوئی موقف معلوم نہیں ہوسکا۔