اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک،سی پی پی) چیف جسٹس ثاقب نثار نے پٹرول اور ڈیزل پر عائد ٹیکسوں کا نوٹس لینے کا بھی عندیہ دے دیا۔نجی ٹی وی کے مطابق سپریم کورٹ میں موبائل کارڈ پر ٹیکس کٹوتی کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پٹرول اور ڈیزل پر عائد غیر منصفانہ ٹیکسز کا نوٹس لینے کا بھی عندیہ دے دیا۔ جسٹس ثاقب نچار نے ریمارکس دیے ہیں کہ ابھی تو میں پٹرول اور ڈیزل کی طرف بھی آﺅں گا، پوچھا جائے گا کہ
پٹرول اور ڈیزل پر کتنا ٹیکس لیا جارہا ہے۔اس سے پہلے موبائل کمپنیوں کے 100 روپے کے کارڈ پر ٹیکس کٹوتی کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دنیا کے مختلف ممالک میں ٹیکس کا تقابلی جائزہ پیش کرنے کا حکم د یدیا اور کہا ہے کہ وہ موبائل کارڈ پر ٹیکس کے معاملے پر ایک ہفتے میں جواب جمع کرائیں۔چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے موبائل کارڈ پر ٹیکس کٹوتی کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ دورانِ سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 100 روپے کے موبائل کارڈ پر 19 اعشاریہ 5 فیصد سیلز ٹیکس، 12 اعشاریہ 7 فیصد ود ہولڈنگ ڈیوٹی اور 10 روپے سروس چارجز ہیں۔چیف جسٹس نے کہا ود ہولڈنگ ٹیکس کی وضاحت کریں یہ کیسے وصول کیا جارہا ہے، جو شخص ٹیکس دینے کا اہل نہیں اس پر ود ہولڈنگ ٹیکس کیوں لگایا جارہا ہے۔ وزیر خزانہ کو بلائیں ان سے پوچھیں کہ 14 کروڑ صارفین سے روزانہ یہ ٹیکس کس کھاتے میں لیا جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت اور ڈپلومیٹس سے ود ہولڈنگ ٹیکس نہیں لیا جاتا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ موبائل کارڈ پر سیلز ٹیکس کیسے لگادیا جس پر ایف بی آر کی جانب سے بتایا گیا کہ سیلز ٹیکس صوبے وصول کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا صوبے کس
قانون کے تحت سیلز ٹیکس لگار ہے ہیں؟ کیا یہ ڈبل ٹیکس لگانا استحصال نہیں ہے، جو ٹیکس ادا نہیں کرتا وہ ٹیکس کے پیسے کیسے واپس لے گا؟۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سروس چارجز کس بات کے لیے جا رہے ہیں،42 فیصد پیسے ٹیکس کی مد میں کاٹ لیے جاتے ہیں، یہ غیر قانونی طریقے سے عوام سے پیسے نکلوانے کا طریقہ ہے ۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سروس چارجز کا جواب کمپنیاں دے سکتی ہیں۔عدالت نے دنیا کے مختلف ممالک میں ٹیکس کا تقابلی جائزہ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے ایف بی آر اور صوبوں کو حکم دیا کہ وہ موبائل کارڈ پر ٹیکس کے معاملے پر ایک ہفتے میں جواب جمع کرائیں۔ سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت 2 ہفتوں کیلئے ملتوی کردی۔