آج چیف جسٹس آف پاکستان بالآخر پشاور بھی پہنچ گئے‘ چیف جسٹس کے آج کے دورے سے معلوم ہوا ملک میں صرف احتساب اکراس دی بورڈ نہیں ہو رہا بلکہ انسپکشن بھی اکراس دی بورڈ ہو رہی ہے اور پورے ملک میں صحت‘ تعلیم اور پانی کی صورتحال تمام صوبوں میں ایک جیسی ہے‘ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے پوچھا‘ آپ نے پانچ برسوں میں پشاور میں کون سا نیا ہسپتال بنایا‘ لاکھوں کی آبادی کے شہر میں صرف 300 بیڈز کا ہسپتال ہے اور وہ بھی لیڈی ریڈنگ نے 1927ء میں بنایا تھا‘
چیف سیکرٹری کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ آپ بدقسمتی دیکھئے‘ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کے پاس بہت سپیس تھی‘ یہ دیکھ رہے تھے چیف جسٹس لاہور‘ کراچی اور کوئٹہ جا رہے ہیں اور یہ صرف صحت‘ تعلیم اور پانی کے منصوبے چیک کرتے ہیں‘ وزیراعلیٰ اگر سمجھ داری کا ثبوت دیتے تو یہ چھ ماہ میں کم از کم پشاور میں صورتحال بہتر بنا لیتے‘ شاید چیف منسٹر کے پاس اتنا بھی وقت نہیں تھا‘ آج وہ گڈ گورننس‘ وہ تبدیلی اور وہ نیا کے پی کے کہاں تھا جس کا ڈھنڈورا پی ٹی آئی پانچ برسوں سے پیٹ رہی ہے اور جس کی بنیاد پر پارٹی نے اگلے الیکشن لڑنے ہیں‘ وہ نیا کے پی کے اگر کہیں تھا تو وہ چیف جسٹس کو نظر کیوں نہیں آیا‘ اس کا جواب عمران خان نے آج کچھ ایسے دیا، یہ وہ آرگومنٹ ہے جو باقی تینوں صوبوں کے وزراء اعلیٰ بھی چیف جسٹس کے دوروں کے بعد دیتے رہے ہیں‘ پھر تبدیلی کہاں ہے؟ پنجاب نے چلیں پانی‘ تعلیم اور صحت نہیں دی لیکن انفراسٹرکچر تو بچھایا‘ سندھ نے چلیں تھرکول کا منصوبہ تو مکمل کر لیا‘ آپ نے کیا کیا‘ آپ پشاور کو تو آئیڈیل بنا سکتے تھے لیکن آپ نے یہ بھی نہیں کیا‘ کیوں؟ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا‘ چیف جسٹس نے آج یہ بھی فرمایا، کیا سارے کام عدلیہ ہی کرے گی اور کیا اب عدلیہ ملک کیلئے قانون بھی بنا لے‘ ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے اور آج عمران خان نے فرمایا سینٹ انتخابات میں 45 کروڑ کی آفر کی گئی تھی، 45 کروڑ کی پیش کش کرنے والا کون تھا اورکہیں عمران خان نے ایک بار پھر جلدبازی میں 20 ایم پی ایز کو سنے بغیر مجرم تو ڈکلیئر نہیں کر دیا‘ یہ 20 لوگ حلف دینے کیلئے تیار ہیں کہیں ایسا نہ ہو جائے عمران خان ایک اور پریس کانفرنس کریں اور یوٹرن لینے پر مجبور ہو جائیں‘ ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔